• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی کابینہ کےاجلاسوں میں صحافیوں کے کسی ایشو کو ایجنڈے کا حصہ نہیں بنایا گیا

پشاور (نامہ نگار) وفاقی حکومت کی جانب سے یکم ستمبر 2018 سے لے کر 30 جنوری 2020 تک وزیر اعظم عمران کی زیر صدارت منعقد ہونے والی وفاقی کابینہ کے 62 اجلاسوں میں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک بھی ایشو پر نہ تو کبھی بات ہوئی نہ ہی صحافیوں سے متعلق کسی ایشو کو کابینہ کے ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا ۔ جبکہ اسی دورانیہ میں سات صحافیوں کا قتل ہوا، چھ صحافیوں کو اغوا کیا گیا، پندرہ کے خلاف قانونی کیس درج ہوئے اور کل ملا کر ایک سو پینتیس خلاف ورزیاں درج ہوئیں۔ میڈیا کے ادارے فریڈم نیٹ ورک نے فروری 2020 میں اس بات کا آئین کے آرٹیکل 19-اے کے معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کے تحت پتہ لگانے کی کوشش کی تھی کہ کابینہ نے صحافیوں کے تحفظ سے منسلک کتنی دفعہ اس معاملے کو اجاگر کیا تھا۔کابینہ نے بل آخر 26 اگست 2020 کو اس بارے میں معلومات سب کے سامنے پیش کیں۔ اس سے قبل فریڈم نیٹ ورک نے وفاقی معلوماتی کمیشن کے سیکشن 17 کے معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کے تحت کابینہ کے خلاف اپیل درج کروا دی تھی کیونکہ کابینہ نے مخصوص وقت کے اندر معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ وفاقی معلوماتی کمیشن کے ذریعے کابینہ کے سیکشن افسر جمیل احمد نے بتایا کہ ”یکم ستمبر 2018 سی لے کر 30 جنوری 2020 تک منعقد ہونے والی 62 کابینہ کی میٹنگ میں ایک دفعہ بھی صحافیوں کے تحفظ یا میڈیا کے خلاف پراپیگنڈہ پر بات نہیں کی گئی۔ ” فریڈم نیٹ ورک کےا یگز یکٹوڈائریکٹر اقبال خٹک نے ایک پریس بریفنگ میں کہا۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ”ان واقعات سے واقف نہیں تھے اور اتنے واقعات ہو جانے کے باوجود حکومت صحافیوں کے تحفظ کے لیے کوئی بھی ایکشن نہیں لے سکی ہے اور صحافیوں کے خلاف جرائم کرنے والے قصور وار ابھی بھی آزاد پھر رہے ہیں” اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ جب تک پاکستان صحافیوں کے حقوق اور انہیں تحفظ نہیں پہنچا سکتا اس وقت تک وہ یو این کے پائدار ترقیاتی اہداف نمبر 10۔16 پر پورا نہیں اتر سکے گا جو کہتا ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ ”پاکستان کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ایس جی ڈی نمبر 10۔16 پر پورا اترے” ۔
تازہ ترین