• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مساوات کا نعرہ دراصل انسان اور انسانیت کا نعرہ ہے، شاید اخلاق اور اخلاقیات کا بھی۔ مذاہب بھی مساوات کے خلاف نہیں جاتے، باوجود اس کے کہ سرمایہ دار، جاگیردار یا مخصوص مذہبی کلاکار کی بارہا کاوش رہی کہ جہاں تک یہ بااثر ہیں وہاں تک اپنی مرضی کے ’’اجتہاد‘‘ کو بروئے کار لائیں۔ مختلف قسم کے طبقات کے اس آمیزہ اشرافیہ کے اقدامات سے عام آدمی کی جتنی بھی چیخیں نکلیں، اُن سے اقتدار کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہوتا ہے نہ جدید دنیا کی ماڈرن اور ’’ماڈل‘‘ انسانی حقوق کی این جی اوز کے کانوں پر جوں تک رینگتی ہے۔ انسان اور انسانیت جہاں جہاں ایک مقام پر ہوں گے وہاں وہاں اقتصادیات و معاشیات کا مکالمہ بھی کھلے دل سے ہوگا لیکن المیہ یہ ہے کہ فلسفہ اور مکالمہ اس وقت دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے جب عنانِ اقتدار کے سیاہ و سفید کی مالک محض اشرافیہ ہو یا حرص و ہوس، اشرافیہ بھی وہ جس نے جمہوریت کو یرغمال بنا رکھا ہو۔ انسانیت خون کے آنسو کیوں نہ روئے جب جمہوریت کے گرد جال بُننے والے سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کی پیوند کاری سے باز نہ آئیں۔ یہ درست ہے کہ ’’دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب‘‘ یہ وہ عمل ہے کہ جو جمہوریت کو واقعی آزادی کی نیلم پری نہیں ہونے دیتا۔

یہ طے ہے کہ کسی آبادی کی گلیاں کچی رہ جائیں یا کسی نگر کو تعلیم اور امورِ صحت میں اشرافیہ کی طرح حصہ نہ ملے تو یہ سزا ایک گروہ کو نہیں، ریاست کو مل رہی ہے۔ اور یہ سزا دے کون رہا ہے؟ یقیناً وہ دے رہا ہے جو حاکمِ وقت ہے اور جس کے ہاں ذمہ داریوں کے احساس اور چشمِ بینا کا فقدان ہے، پھر دیکھنے کیلئے دوربین دستیاب ہے نہ خوردبین۔ اگر کسی بستی کو انصاف میسر نہیں، عدالت فراہمی انصاف سے قاصر ہے یا جمہوریت، ہر ایک صورت میں سزا تو ریاست کو مل رہی ہے۔ یہ سزا نہیں تو کیا ہے کہ لوگوں کا فلسفۂ ریاست اور پارلیمنٹ تک سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ گر پارلیمنٹ سے اعتماد اٹھ جائے تو جمہوری کہانی میں دم ہی کیا رہ جائے گا؟ دم نکل نہیں جائے گا؟ ایک کرنٹ افیئر کو شامل کرکے آگے بڑھتے ہیں۔

موجودہ حکومت کے زمامِ اقتدار سنبھالنے کے بعد اب تک ادویہ کی قیمتوں میں پانچ سو فیصد تک اضافہ ہو چکا۔ یعنی 100روپے والی دوا 500روپے کی۔ جبکہ ریاست میں اس دوران خطِ افلاس سے نیچے جانے والوں کی تعداد میں کثیر اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھ نہیں سکیں، پٹرول عالمی منڈی میں سستا اور ہمارے ہاں مہنگا ہوا ہے۔ بےروزگاری کا اژدھا الگ منہ کھولے ہوئے ہے۔ ایکسپورٹ پر تالے اور انڈسٹری کی زباں پر نالے ہیں، بیوروکریسی الگ منہ زور گھوڑا بنی ہوئی ہے۔ ایسی صورتحال کارکردگی کی متقاضی ہے نہ کہ صرف پرانوں ہی پر الزام لگانے کی۔ وجہ کچھ بھی ہو، سابق حکومت کی کرپشن یا اس حکومت کی نااہلی، کیا پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا؟ کیا صحت و تعلیم اور فراہمی انصاف جیسے بنیادی انسانی حقوق کیلئے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا جمہوری حسن نہیں؟ نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن و کوآرڈنیشن کے معاون خصوصی فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ ’’قیمتوں میں اضافے سے ہم نے مافیا کی کمر توڑ دی‘‘؟ اس پر عام آدمی کن حقوق کا تعویذ بناکر گلے میں ڈالے اور کون سا نوحہ پڑھے؟ ابھی کل کی بات ہے کہ 94ادویہ کی قیمتوں میں 262فیصد تک اضافے کا نوٹس جاری ہوا ہے۔ حکومتی مخالفین کا بھی حسنِ ظن تھا کہ ڈاکٹر فیصل سلطان کے آنے سے شاید امورِ صحت میں کسی تبدیلی کے آثار نظر آجائیں مگر تاحال سب دھندلا ہی دھندلا ہے۔ کوچہ و بازار یا دور دراز دیہات اور پسماندہ علاقوں کو نظرانداز کرنا ہی ریاست کو سزا دینے کے مترادف نہیں بلکہ سزا تو یہ بھی ہے کہ وہ حقوق اور امور جو آئین کی 7تا 28دفعات میں مرثیہ خواں ہیں، اُنہیں کثرت سے پارلیمنٹ میں زیر بحث ہی نہ لایا جائے۔ جانے اس پر حکومتی یا اپوزیشن کے عوامی نمائندگان سراپا احتجاج کیوں نہیں۔

قارئین باتمکین! آسیہ میر کے رشحات قلم پچھلے دنوں مطالعہ میں رہے، اپنی تصنیف ’’اقبال اور کارل مارکس کا فکری قرب و بعد‘‘ میں ایک جگہ پارلیمانی تاریخ اور اہمیت کو یوں نوک قلم پر لاتی ہیں کہ ’’اگرچہ نظامِ جمہوریت میں بھی خواص ہی کا خیال رکھا گیا البتہ بادشاہ اور پادری سے ان کا، الوہی مقام چھن گیا اور اقتدارِ اعلیٰ کا مقام پارلیمنٹ ٹھہرا‘‘ ایک قابلِ غور بات کہ: شہری آزادیاں، ذمہ داریاں، مراعات اور پارلیمنٹ کا حلقہ اختیار، انگلستان کے باشندوں کا قدیم پیدائشی حق اور ورثہ ہے، اور یہ کہ بادشاہ کی شخصیت، مملکت کے اصول، قلمرو کا دفاع۔ مذہبی امور، قانون سازی، قوانین کا نفاذ اور شکایات کی تلافی جیسے یہ موضوعات پارلیمنٹ میں بحث و مباحثے اور غور کے موضوعات ہیں۔ پس ثابت یہ ہوا کہ جمہوریت جیسی بھی لولی لنگڑی ہو پارلیمنٹ کے رائے دینے یا رائے رکھنے کا عمل حقوقِ انسانی کو بہرحال تقویت بخشتا ہے۔ ریاست ماں جیسی ہے یا باپ جیسی، یا پھر یہ ’’جنت‘‘ ہے یا نہیں ہے لیکن ایک بات تو صداقتِ عامہ ہے کہ اسے ماں کی گود یا باپ کا سایہ سمجھا تو جا سکتا ہے اور ضربِ کاری سے بچایا جا سکتا ہے، ریاست جنت تراشنے کا پلیٹ فارم تو ہے ہی پس اداروں کو آپس میں الجھا کر یا الجھاؤ و تناؤ کا ایکوسسٹم بنا کر عام آدمی کا جینا تو مشکل نہ بنایا جائے۔ ریاست کو فلاحی ریاست بنانا ہی جمہوریت ہے اور حکومت کا اصل کام بھی یہی ہے۔

لیڈری تو نام ہی عشق کا ہے، ریاست سے عشق، مگر مجرموں کے بجائے ریاست کو سزا دینا کہاں کی لیڈر شپ ہے؟ ’’عشق، شوق کی پیدائش ہے‘‘، ماننا پڑے گا اسی شوق کی پیدائش کو مارکس نے محنت اور اقبال نے عشق کا نام دیا۔ حقیقی تبدیلی کے خواہاں کیلئے پہلے عشق کے مقام پر پہنچنا ضروری ہے۔ ہم انا کی شاہراہ پر رہیں گے تو اداروں کی آن بان نیست و نابود ہو جائے گی جس کی سزا ریاست کو ملے گی، مجرموں کو نہیں!

تازہ ترین