کوروناکی وبا نے جہاں عالمی سطح پر عام زندگی کو مفلوج کردیا ہے، ملکی سطح پر بھی معاشرتی و اقتصادی زندگی پر بڑا گہرا اثر ڈالا ہے جبکہ اس کی وجہ سے انداز فکر اور نظریات میں بھی کافی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں بلکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک نئے زاویے سے ترقی کے بہت سے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں جن میں سے ایک مفاصلاتی تعلیم ہے۔ دنیا بھر کے اعلیٰ درجے کے تعلیمی اداروںمیں بہترین کورسز کے بارے میں آگاہی بڑھ رہی ہے ، جن میں سے بیشترآزادانہ طور پر یا معمولی قیمت پر آن لائن دستیاب ہیں۔ اس سے تعلیمی معیار کو بہتر بنانےمیں بہت مدد مل سکتی ہے کیونکہ پاکستان میں تعلیم کے معیار کو بہتربنانےمیں سب سے بڑی رکاوٹ اسکول ، کالج اور جامعات کی سطح پر فیکلٹی کا معیار ہے۔ ہمارے ہاںجامعات میں تقریبا 15لاکھ طلبااعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ہیں لیکن پی ایچ ڈی کی سطح پر صرف 15,000فیکلٹی ممبر ہیں۔یعنی ہر 100طلباپر صرف ایک Ph. D فیکلٹی ممبر ہے جبکہ ہر 20 طلبا کے لئے پی ایچ ڈی سطح کے ایک فیکلٹی ممبر کے تناسب کو پہنچنے کے لئے ، ہمیں مزید 60,000پی ایچ ڈی کی سطح کے فیکلٹی ممبرز رکھنے کی ضرورت ہے جبکہ ہمارے موجودہ تعلیمی شعبےکے لئے مختص رقم اتنے طلبا کو بیرون ملک ڈاکٹریٹ کی تربیت کے لئے بھیجنے کے لئے کافی نہیں۔ کالجوں کی صورتحال اور بھی خراب ہے ، تعلیم سب سے زیادہ نظرانداز کیا جانے والا شعبہ ہے۔ ملک کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کی سطح بڑی پریشانی کا باعث ہے۔ ان مسائل کا حل بہرحال دستیاب ہے ، اگرہماری اس پرعمل کرنے کی خواہش ہے۔ بڑے پیمانے پر اوپن آن لائن کورسز اگر مناسب طریقے سے استعمال ہوں تو تعلیم کامعیار بہتر ہوسکتا ہے۔
امریکہ کی مشہور جامعہ ایم آئی ٹی کی جانب سے 20سال سے ایم آئی ٹی اوپن کورس ویئر کے نام سےکورسز دستیاب ہیں اور اس کے بعد دیگر جامعات نے بھی ان کورسز کی پیش کش شروع کردی ہے۔لندن میں قائم فیوچر لرن ڈیجیٹل تعلیم کی فراہمی کا ایک پلیٹ فارم ہے جو اوپن یونیورسٹی اور سیک لمیٹڈ کےتحت دسمبر 2012 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس میں اب 175برطانوی اور بین الاقوامی جامعات اور شراکت دار شامل ہیں جو بہت سے شعبوں میں کورسز پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح مئی 2010 میں قائم ہونے والا یو ڈیمی ایک امریکی آن لائن تربیت کا پلیٹ فارم ہے جس میں 50ملین سے زائد طلبا اور000، 57انسٹرکٹر ہیں ، اور 65سے زیادہ زبانوں میں تدریسی کورسز دستیاب ہیں۔ خان اکیڈمی جس کی بنیاد سلمان خان نے 2008ءمیں رکھی تھی۔ یہ امریکہ میں قائم ایک کمپنی ہے جو اسکول اور کالج کی سطح کی مشقیں ، تدریسی وڈیوز ، اور ذاتی نوعیت کا لرننگ ڈیش بورڈ، جس میں ریاضی ، سائنس ، کمپیوٹنگ ، تاریخ ، معاشیات وغیرہ پیش کرتی ہے۔ان تدریسی پلیٹ فارمز کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے ، اور متعلقہ کمپنیوں کی اجازت کے بعد ، ہم نے ان تمام مذکورہ بالاتعلیمی مواد میں سے بیشتر مواد کو ڈاؤن لوڈ کرکے ایک پلیٹ فارم پر مربوط کردیا ہے۔ لہٰذا اس سے طلباکی اسکول، کالج اور جامعہ کی سطح پر ہزاروں بہترین کورسز تک مفت رسائی کو ممکن بنادیا ہے۔یہ مربوط سلسلہ ہماری نگرانی میں جامعہ کراچی کے بین الاقوامی مرکز برائے کیمیکل اور حیاتیاتی سائنسز میں تیار کیا گیا ہے اور www.lej4learning.com.pk پر بلا معاوضہ دستیاب ہے۔
اس سہولت سے دنیا بھر سے کوئی بھی فرد باآسانی مفت مستفید ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ اسکول کی سطح کے بہت سے کورسز کا طلباکی آسانی کے لئےاردو میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی وزارت تعلیم ان کورسزکا اطلاق تمام اسکولوں ، کالجوں اورجامعات میں لازمی قرار دے ۔ تاکہ ہم جلداز جلد اس تعلیم کے نظام کو نافذ کرسکیں جس سے نہ صرف ہم اپنے قابل اساتذہ سےسیکھ سکتے ہیں،بلکہ دنیا کے بہترین اساتذہ سے بھی مستفید ہو سکیں گے ۔ اس تعلیمی منصوبے کیلئے 6 ارب روپے کے فنڈز نالج اکانومی ٹاسک فورس میں مختص کئے گئے ہیں ، جس کےوزیر اعظم عمران خان چیئرمین اور میں وائس چیئرمین ہوں، جامعہ کی سطح کی تعلیم کو ترقی دینے کے لئے ورچوئل یونیورسٹی کے ذریعے ’’مخلوط تعلیم‘‘ کا نظام نافذ کیا جائے گا۔ پاکستان میں وسیع پیمانے پر اس طاقتور نظام تعلیم کو متعارف کروانے کے لئے آگے بڑھنا ایک اہم اقدام ثابت ہوگا ۔
امریکی کاروباری ایلون مسک نے اسپیس ایکس کے نام سےکمپنی قائم کی ہے جوکہ ناساکی جانب سے کئے جانے والے اخراجات کےبرعکس بہت کم لاگت میں خلا میں راکٹ بھیجنےکے قابل ہے۔ چند سال قبل قائم ہونے والی برقی کار کمپنی ٹیسلا کے حصص کی قیمت سو سال قبل قائم ہونے والی فورڈ کے حصص کی قیمت کو پیچھے چھوڑ گئی ہے، اور اب یہ بڑے پیمانے پر مان لیا گیا ہے کہ روایتی انجن والی موٹر گاڑیاں اپنے اختتام کی جانب گامزن ہیں ۔ ایک دہائی کے اندر ، زیادہ تر پٹرول / ڈیزل کاروں اور بسوں کی جگہ الیکٹرک گاڑیاں لے لیں گی۔
قزمہ طرزیات اتفاقی طور پر اس وقت سامنے آئی جب یہ پتہ چلا کہ مادوںکی خصوصیات میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جب ان کے سائز کو 1 نینو میٹر اور100نینو میٹر کے درمیان کردیاجاتا ہے۔ مثال کے طور پر سونے کا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے اور یہ نیلا مائل سبز اور سرخ یا جامنی رنگ کا ہو جاتا ہے، یہ ذرات کے سائز پر منحصر ہے ، اگر اس کا سائز نینواسکیل تک کم ہو جائے۔ نینو ٹیکنالوجی طب ، زراعت ، خوراک ، پانی صاف کرنے ، کاسمیٹکس، برقیات ، نیا مواد اور بہت سے دوسرے شعبوں میں کافی کارگر ثابت ہوا ہے ۔ نینو زراعت سے وابستہ مصنوعات کی مارکیٹ کا اندازہ لگایا گیا ہےجوکہ 20 ارب ڈالرہےاور اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے،اس کے علاوہ ’’میٹا مٹیر یل ‘‘ تیار کیا گیا ہے، یہ ایسا مادہ ہے جو روشنی کو موڑتا ہے۔ اس طرح کے مواد سے ڈھانپنے والے مواد پوشیدہ ہوجاتے ہیں ، اور یہ پہلے ہی ٹینک اور ہتھیاروں کو اوجھل رکھنے کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔ جامعہ مانچسٹر کے دو پروفیسروں نے کاربن کے ایک مادے کی دریافت پر 2010میں نوبل انعام حاصل کیا ہے ۔ اسے ’’گرافین‘‘کہتے ہیں یہ ایسا مادہ ہے جواسٹیل سے 200 گنا زیادہ مضبوط ہے اور انسانی بال سے دس گنا باریک ہے ۔موبائل فون کی بیٹریاں جیسے نئے الیکٹرانک آلات میں ’’گرافین‘‘ کافی کارآمد ثابت ہو رہاہے۔ گرافین سے بنی لیتھیم آئن بیٹریاں روایتی بیٹریوں کے مقابلے میں اب 10 گنا زیادہ عرصے چلتی ہیں۔
اس طرح کی نئی ٹیکنالوجیز کا ابھرنا اب ترقی پذیر ممالک کے لئے نئے اور حیرت انگیز مواقع فراہم کر رہا ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک کے نو جوانوں کو علمی معیشت کے نئے دور کے لئے تیار کریں ، جہاں قدرتی وسائل کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے۔ یہی(Blended Education Program) ہمارے مستقبل کو روشن کرسکتے ہیں۔ ہماری وزارت تعلیم کوتیزی سے کام کرنے اور جلدی سےاس نظام تعلیم کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔