پاکستان دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جو کورونا ایس او پیز کے ساتھ اپنا ڈومیسٹک کرکٹ سیزن کرارہا ہے۔اس ٹورنامنٹ کے فورا بعد زمبابوے کی ٹیم کو ون ڈے اور ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل سیریز کھیلنے پاکستان آنا ہے۔امید یہی ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے پاکستانی کھلاڑیوں کو زمبابوے کے خلاف میچوں میں موقع ملے گا۔زمبابوے ٹیسٹ کھیلنے والا ملک ہے اس لئے انہیں تر نوالہ سمجھنا حماقت ہوگی لیکن اس وقت جو کھلاڑی غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہیں انہیں ضرورموقع دینا چاہیے۔میرٹ کو اولین ترجیح بناکر تجربہ کار کے ساتھ بعض باصلاحیت نوجوانوں کو بھی آزمانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان شاہین کے لئے نیوزی لینڈ کے دورے کا اعلان بھی زبردست کوشش اور کاوش ہے۔اس سے قبل ٹیم انتظامیہ نے انگلینڈ کے دورے میں حیدر علی کو درست وقت پر موقع دیا گیا۔قومی ٹی ٹوئینٹی ٹورنامنٹ میں سیالکوٹ کے عبداللہ شفیق میں بھی اچھے بیٹسمین کی جھلک نظر آئی۔ایسے بیٹسمینوں کو آزمانے کی ضرورت ہے۔
پی سی بی نے ہیڈ کوچ مصباح الحق کو ملتان بھیج کر کھلاڑیوں کی کارکردگی پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ملتان میں مصباح الحق نے مقامی کوچز اور سینئر کھلاڑیوں کو نیشنل فریم ورک پالیسی بتادی ہے۔ بائیو سیکیور ببل میں قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق نے نیشنل فریم ورک پالیسی کے اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس میں تمام ڈومیسٹک ٹیموں کے کپتان، ہیڈ کوچز اور اسسٹنٹ کوچز نے شرکت کی۔
اس دوران قومی کرکٹ ٹیم کے بولنگ کوچ وقار یونس اور نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر کے کوچ گرانٹ بریڈ برن نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں تمام شرکاء کو نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر کے ویژن کے بارے میں آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ قومی ٹیم کی منیجمنٹ کی پالیسیوں کے مطابق مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ڈومیسٹک ٹیموں اور کھلاڑیوں کی تیاری کی ہدایت کی گئی۔ اجلاس میں سابق کپتان سرفراز احمد ، حارث سہیل ، شاداب خان، سعد نسیم اور محمد رضوان اور انٹرنیشنل پلیئرز ڈویلمپنٹ کے سربراہ ثقلین مشتاق نے بھی شرکت کی۔امید ہے کہ ان میٹنگ کے ثمرات سامنے آئیں گے اور سلیکٹرز ماضی کی روایات کو ختم کریں گے۔
اب وقت آگیا ہے کہ سلیکٹرز اور خاص طور پر مصباح الحق کو اپنے عمل سے سب ٹھیک کرنا ہوگا۔مستحق کھلاڑی انصاف کے طلب گار ہیں۔پی سی بی دعوی کررہا ہے کہ 200 ملین امریکی ڈالر کی تین سالہ ٹی وی ڈیل گیم جینجر ثابت ہوگی جو بہتر براڈ کاسٹ کوالٹی کے ساتھ ساتھ مستقبل میں کھلاڑیوں کا معاوضہ بڑھانے میں بھی مدد کرے گی۔ڈومیسٹک کرکٹ میں ماضی میں بھی دعوے ہوتے رہے ہیں۔
احسان مانی اور وسیم خان کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے ایسے اقدامات جو واقعی پاکستان کرکٹ کے لئے گیم چینجر بن جائیں۔ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے خاتمے کے بعد کھلاڑیوں کے معاشی حالات پر بھی نظر رکھنا ہوگی ۔ایک ہزار کے لگ بھگ کھلاڑی بے روز گار ہوچکے ہیں ان کے لئے بھی جامع پالیسی بنانا کی ضرورت ہے۔