• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل اسرائیل کو منوانے کی مہم چل رہی ہے، جسے امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے۔ کیا اسرائیل کو تسلیم کرنا مسلم اُمہ کے لئے ضروری ہے یا کسی طرح فائدہ مند ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ قرآن حکیم میں ارشادِ الٰہی ہے: ’’یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے‘‘۔ پھر ہم کیسے سمجھ لیں کہ اسرائیل یا امریکہ ہمارے دوست ہو سکتے ہیں؟ یہودی (اسرائیلی) تو وہ قوم ہے جو بوٹی حاصل کرنے کے لئے دوسرے کا بکرا کٹوانے سے بھی دریغ نہیں کرتی، اس کے خیال میں جس طرح بھی ہو اپنا الو سیدھا ہونا چاہئے۔

امریکہ نے اسرائیل جیسے چھوٹے اور کمزور ملک کو ایٹمی قوت سے لیس کر دیا جبکہ ایران جس کا رقبہ و آبادی اسرائیل سے کئی گنا زیادہ ہے، پر ہر قسم کی پابندیاں لگا کر اُسے مفلوج کر رکھا ہے، ایران کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے، اس کے پاس مالی وسائل ہیں، افرادی قوت ہے، پیٹرول جیسی دولت ہے، کیا نہیں ہے اُس کے پاس جو اسرائیل کے پاس ہے، اگر نہیں ہے تو وہ جوہری قوت، جس پر امریکہ نے سخت پابندیاں لگا رکھی ہیں۔

صرف اس لئے کہ ایران ایک مسلم مملکت ہے، امریکہ کا بس نہیں چل رہا ورنہ وہ تو عراق کی طرح ایران کو بھی اس کے تیل کی وجہ سےکھنڈرات میں تبدیل کر دیتا۔

جلد ہی امریکہ میں صدارتی انتخاب ہونے والے ہیں۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ مقبولیت اور حیثیت نہیں ہے جو گزشتہ الیکشن کے وقت تھی۔ اس بار ڈونلڈ ٹرمپ کو جیتنے کے لئے پہلے سے زیادہ ووٹروں کو قائل کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ میں چونکہ پہلے ہی یہودیوں کی حیثیت بہت مستحکم ہے، وہ امریکی سیاست میں بڑی حد تک دخیل ہیں، اُن کی مرضی اور مدد کے بغیر کوئی بھی امیدوار کامیاب نہیں ہو سکتا۔

اس لئے انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو مجبور کیا ہے کہ اگر انھیں کامیاب ہونا ہے تو مسلم اُمہ، جس نے اسرائیل کا بائیکاٹ کر رکھا ہے، سے اسرائیل کو تسلیم کرائیں، اسی لئے ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کی انتظامیہ جی جان سے کوشش کررہی ہے کہ چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستیں جن پر امریکہ کا بڑا اثرورسوخ ہے، جن پر امریکہ دبائو بھی ڈال سکتا ہے وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں تا کہ ناصرف یہودی ووٹ بلکہ مسلم ووٹ بھی مل سکیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ بھی کوشش ہے کہ امریکہ کے ہندو ووٹ بھی اُن کو ملیں اس لئے وہ بھارت کے حق میں بیانات دے رہے ہیں، چین کے مقابلے میں آنے پر بھارت کو شاباشی دے رہے ہیں کہ چڑھ جا بیٹا سولی ، رام بھلی کرے ۔ اسرائیل کو تسلیم کرانے کی ساری زور آزمائی انتخابات تک کی ہے کیونکہ اس سے ووٹ حاصل کرنا مقصودہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جیتنا مشکل ہے کیونکہ اُنھوں نے گزشتہ برسوں میں جو پالیسیاں بنائی تھیں ان سے امریکی معیشت کمزور ہوئی اور عوام کو نقصان اُٹھانا پڑا ہے، جو امریکی ووٹر کے لئےبہت اہمیت کا حامل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی کامیابی کے لئے ہر قسم کے حربے استعمال کر رہے ہیں، اُن ہی حربوں میں سے ایک حربہ مسلم اُمہ کو مجبور کرکے اسرائیل کو تسلیم کرانا ہے۔

متحدہ عرب امارات نےامریکی دبائو کےآگے سرتسلیم خم کردیا اور اسرائیل کوتسلیم کر لیا۔ کویت نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور کئی چھوٹی اسلامی ریاستیں اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں، امریکی صدر بتدریج اپنا دبائو بڑھا رہے ہیں اور اسرائیل کو منوا رہے ہیں، پاکستان پر بھی خاصا امریکی دبائو ہے لیکن پاکستان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے جبکہ سعودی عرب نے اسرائیل کے لئے اپنی فضائی حدود کھول دی ہیں۔ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جس نے ایٹمی قوت حاصل کی ہے۔

اسرائیل نہیں چاہتا کہ پاکستان یوں آزادی سے اپنی جوہری قوت میں اضافہ کرتا چلا جائے، اگر پاکستان کسی طرح بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے تو یوں امریکہ کا اسرائیل کے ذریعے جوہری معاملات کی نگرانی کرنے کاراستہ ہموار ہو جائے گا۔ امریکہ اور اسرائیل کایہ خواب خواب ہی رہے گا، نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچےگی۔

پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مقصد اپنے انتہائی دشمن کو دعوت دینا ہوگا۔ امریکہ، بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ پہلے ہی پاکستان کے خلاف ہے کہ کسی بھی طرح پاکستان کی جوہری صلاحیت ختم کردی جائے اگر ایسا ممکن نہیں تو اس پر پابندی تو لگائی جا سکتی ہے۔

پاکستان ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا مقروض ہے، یہ دونوں ادارےہی دنیا پر اپنی دولت کے ذریعے حکومت کرتے ہیں، اپنی شرائط پر قرضے جاری کرتے ہیں اور بتدریج اپنی شرائط سخت کرتے چلے جاتے ہیں۔

اُن کا اصل نشانہ مسلم ممالک کے عوام ہوتے ہیں، ان پر اپنے من مانے ٹیکس لگوا کر اپنی رقوم کا تحفظ یقینی بناتے ہیں اور اس ملک کے عوام میں بےچینی اور اپنی حکومت پر بداعتمادی پیدا کرتے ہیں، یوں مقروض ملک ان کی شرائط ماننے پر مجبور ہوتا ہے۔

تازہ ترین