جہاں انسان اپنی عقل و فہم کے بل بوتے پر بری و بحری زندگیوں میں کارفرما بیشتر حقائق کی تہہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے اور تیزی سے ان کی افادیت کو اپنی زندگیوں کےلئے کارآمد بنانے میں کامیاب ہوا ہے وہاں خلائی اسرار و رموز پر بھی کمند ڈالنے میں پیچھے نہیں رہا ہے ۔ خلائی سائنس میں مزید پیش رفت ہورہی ہے ،جس کے بارے میں چند باتیں قارئین کے لیے پیش ہیں ۔
ریاضی سیاروں کی دریافت میں مدد کرتی ہے
Herzberg انسٹی ٹیوٹ آف اسٹروفزکس میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے خلائی ٹیلی اسکوپ سے حاصل ہونے والی معلومات پر بعض ریاضیاتی فارمولوں کا اطلاق کیا ہے۔ اس میں سیاروں کے بغیر ستاروں کی حوالہ جاتی شبیہ digitally تخلیق کی گئی ہے۔ جب اس حوالہ جاتی شکل کو ہماری کہکشاں سے حاصل کی گئی شبیہ میں سے نفی کیا گیا تو حیرت انگیز طور پر تین سیارے ظاہر ہو ئے۔ ان میں سے ہر سیارے کی کمیت مشتری سے3 گنا زیادہ تھی۔ اس طرح ممکن ہے کہ کبھی زمین جیسا سیارہ بھی دریافت ہو جائے۔
خلا میں کمرشل سپر سونک فلائٹ
Lockheed Martinنے ایک خاموش سپر سونک سواری تیار کی ہے جوکہ شکا گو سے پیرس تک صرف 4 گھنٹے میں پہنچ جائے گی ۔یہ سواری جرمنی کی خلائی ایجنسی DLRنے تیار کی ہے ۔یورپی کمیشن نے اسپیس لائنر(Space Liner )کے ایک منصوبے کو امداد فراہم کی ہے جو کہ 14000mph کی رفتار سے سفر کرے گی اور اس میں 50مسافروں کی گنجائش ہو گی یہ خلا میں سفر کرے گی اور نیویارک سے سڈنی تک کا فاصلہ 90منٹ میں طے کرے گی۔
اسپیس لائنر 26 میل کی اونچائی تک جائے گی جو کہ خلا کی نچلی سرحد ہے اور نیچے اترنے کے لیے صرف سات منٹ کا وقت لے گی، کیوں کہ یہ بہت زیادہ اونچائی پر ہو گی چناںچہ اس کے Sonic Boom سےاس آبادی میں کوئی خلل واقع نہیں ہو گا ،جس کے اوپر سے یہ سفرکرے گی۔ اس قدر تیز رفتاری کی وجہ سے اسپیس لائنز کا درجہ ٔحرارت 5400ڈگری سینٹی گریڈ ہو جائے گا۔ اس درجۂ حرارت کو کم کرنے کے لیے اس کا جسم انسانی جسم کی طرح مسامی مٹی سے بنایا گیا ہے ۔ امریکی کمپنی Virgin Galactic نے 200مسافروں کی قبل از وقت بکنگ شروع کر دی ہے، جس میں کل 30ملین ڈالر کی لاگت متوقع ہے۔
پہلی خلائی ٹیکسی کا آغاز
پہلی خلائی ٹیکسی فیلکن 9کا کامیاب آغاز 2010ء میں Cape Canaveral فلوریڈا سے کیا گیا ، ایک نجی کمپنی Space X.A کو ناسا نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پرسامان لے جانے کا ٹھیکہ دیا ہے اور اب اس کمپنی کو اُمید ہے کہ اس کو خلانوردوں کو بھی خلامیں لے جانے کا ٹھیکا مل جائے گا۔اگرچہ اس کو کافی سستا سمجھا جا رہا ہے ،تاہم تجارتی خلائی گاڑیوں کے تجارتی استعمال کے حوالے سے بعض تحفظات موجود ہیں،کیوں کہ اس میں حفاظت کے حوالے سے کئی پہلوئوں کی قربانی دینی پڑے گی۔
خلا سے زہریلے فضلےکی شناخت
زہریلے فضلے کو ضائع کرنے کا عمل ماحولیات کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج ہے جو مجرمانہ کام کرنے والی کمپنیوں کا بڑا بزنس بن چکا ہے اوریہ ادارے ان کوممنوعہ مقامات پر ڈال دیتے ہیں۔ اب اس قسم کے فضلے کا سراغ لگانے کے لیے ٹیکنالوجی تیار کی گئی ہے جو زمین میں داخل ہو جانے والے ریڈار (GPR) Ground Penetrating Radar کے ذریعے زمین کے اندر موجود فضلے کا سراغ لگا ئیں گے۔
یہ کام دفن شدہ مواد کے قریب سے مائیکرو ویو شعاعوں کے واپس پلٹنے کے ذریعے انجام دیا جائے گا۔ واپس آنے والا سگنل زمین کے اندر دفن مواد کے حوالے سے اہم معلومات فراہم کرے گا۔ اٹلی سے تعلق رکھنے والے سائنس دان جو کہ وینس میں ConsorZio VeneZia Nuova میںکام کرتے ہیں ،ان کے مطابق اس قسم کے زہریلے مواد کوخلا میں موجود سیٹلائٹ کے ذریعے دریافت کیا جاسکتا ہے ۔
خلائی مشاہدہ گاہ سے … سورج کا مشاہدہ
سورج ہماری کہکشاں میں موجود 100بلین ستاروںمیں سے ایک ستارہ ہے، جس کا قطر 865,000 میل (109زمینوںکے برابر اور اس کی کمیت 330 زمینوں کے برابر ہے۔ اس کا رنگ حقیقت میں سفید ہے۔ یہ پیلا اس لیے نظر آتا ہے کہ ہم اس کو فضا کے ذریعے دیکھتے ہیں جیسا کہ آسمان کا رنگ بالکل سیاہ ہے۔ مگر ہمیں نیلا نظر آتا ہے۔
یہ زیادہ ہائیڈروجن اور ہیلیم سے بنا ہے اور یہ ہمارے نظام شمسی میں دوڑ رہا ہے، جس میں زمین بھی شامل ہے۔ یہ Milky way کے گرد 24,000-26,000 نوری سال کے فاصلے پر گردش کر رہا ہے اور اس کا ایک مکمل طور پر 225-250 ملین سال کے برابر ہے۔ اس کے مرکز کا درجۂ حرارت 15ملین ڈگری سینٹی گریڈ ہے اوراس پر دبائو زمین پر ہوا کے دبائو سے340 بلین گنازیادہ ہے۔ اس کی سطح کا درجۂ حرارت 6000 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔
رواں سال فروری میں ناسا نے Solar Dynamic Observatory (SDO) خلائی جہاز خلا میں بھیجا ہے، تا کہ یہ دیکھا جا سکے کہ سورج کی مقناطیسی فیلڈ اور اس کی دوسری خصوصیات زمین پر کس طریقے سے اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس نے سورج کی بعض انتہائی حسین تصویریں زمین پر بھیجنا شروع کی ہیں اور اگلے پانچ سالوں میں یہ ہمیں معلومات کا ایک خزانہ فراہم کردے گا ،جس سے ہم سورج کے بارے میں مزید بہتر انداز میں جان سکیں گے۔
شمسی طاقت کے حامل خلائی جہاز کا آغاز
2010 ء میں جاپان نے پہلے شمسی طاقت سے چلنے والی خلائی جہاز IKAROS (Inter-Planetary Kite-Craft Accelerate by Radiation of Sun) کا آغازکیا تھا۔ اس میں دھکا دینے کی مرکزی قوت کے لیے شمسی بادبانی ٹیکنالوجی Solar Sail Technology کا استعمال کیا گیا۔ شمسی بادبان ہر طرف سے 14میٹر طویل ہے اور ایک پتلی پولی مر کی چوکور جھلی پر مشتمل ہے جو بالکل پتنگ کی شکل کی محسوس ہوتی ہے، جھلی میں پتلی فلم والے شمسی سیل نصب کیے گئے ہیں۔
یہ شمسی بادبان خلا میں بھیجے جانے کے چند ہفتے بعد بتدریج کھل جائیں گے اور سورج کی روشنی سے طاقت لینے والا خلائی جہاز سیارہ وینس کے گرد چھ ماہ تک سفر کرے گا، اور پھر مزید تین سال تک ہمارے سورج سے کچھ فاصلے پر قیام کرکے سائنسی معلومات اکٹھی کرے گا۔ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو 50میٹر لمبے شمسی بادبان کا حامل ایک نیا خلائی جہاز بھیجا جائے گا۔
پہلا شمسی بادبان … خلا میں
شمسی بادبان جنہیں روشنی کے بادبان یا Light sail کہا جاتا ہے،جس کو شمسی جہاز کو دھکیلنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اس میں ستاروں اور لیزر سے نکلنے والی بے انتہا پتلے (Ultra thin) آئنے لگے ہیں جنہیں پولی مر کے مواد سے بنایا جاتا ہے جو کہ دو مختلف قوتوں کا استعمال کرتے ہوئے خلائی جہاز کو دھکا دیتے ہیں ، یہ دو قوتیں طاقت ور تابکار شعاؤں کا دبائو اور کمزور شمسی ہوائیں ہیں۔ شعاعوں کا دبائو اس وجہ سے پید اہوتا ہے کہ فوٹون (روشنی کے ذرات) میں مومنٹم کی قلیل مقدار موجود ہوتی ہے۔ شمسی ہوائوں کا دبائو تین magnitude کم ہوتا ہے۔
ان دونوں قوتوں سے پیدا ہونے والا اسراع بہت معمولی ہوتا ہے لیکن خلائی جہاز کیوں کہ خلا میں سفر کرتے ہیں چناں چہ یہاں پر کوئی دوسری مزاحمت سوائے ممکنہ کشش ثقل کے نہیںہوتی اور وقت کے ساتھ خلائی جہاز کی رفتار میں نمایاں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔پہلا خلائی جہاز جس میں شمسی بادبان کا استعمال دھکیلنے کی اصل طاقت کے طور پر کیا گیا وہ KAROS یا Inter Planetary Kite-Craft Accelerated by Radiation of Sun ہے جس کا افتتاح جاپان کی ایرو اسپیس exploration ایجنسی نے 12 مئی 2010ء میں کیا تھا۔
دسمبر 2010ءمیں اس خلائی جہاز نے سیارہ وینس کو پار کر لیا تھا اور اس طرح جاپان میں خلائی پروگرام نے ایک بڑی کروٹ لی تھی۔ناسا نے 100مربع فیٹ لمبی شمسی بادبان نچلے زمینی مدار Low Earth orbit میں کھولی جو کہ بتدریج زمین کی طرف آئے گی۔ غالباً اس کا استعمال انتہائی حساس سیٹلائٹ کو زمین پر واپس لانے کے لیے کیا جارہا ہے ،تا کہ امریکا کی حساس معلومات چوری ہونے سے بچائی جا سکیں۔
حیران کن کائنات
ہماری کائنات کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 713 بلین سال پرانی ہے۔ہمارے مشاہدے میں آنے والی کائنات کا منظر تقریباً 93 بلین نوری سال کے برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روشنی کو ہماری کائنات کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنے کے لیے 93 بلین سال کاسفر کرنا ہو گا۔ اس بات کے شواہد مسلسل مل رہے ہیں کہ کائنات مسلسل وسعت پذیر ہے اور اس کی وسعت میں اضافہ ایک پراسرار طاقت Dark energy کی وجہ سے ہے۔ کائنات کو تشکیل دینے والے مادّے کی کثیر تعداد ایسی شے سے نہیں بنتی ہے، جس کا ہم مشاہدہ کر سکیں۔
ان قابل مشاہدہ چیزوں میں کہکشائیں، نظام ہائے شمسی، اور سیارے شامل ہیں ،مگر ان سب کے علاوہ ایک پراسرار مواد ہے، جس کو Dark Matter کہا جاتا ہے۔ اس کا مشاہدہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ہماری قابل مشاہدہ کائنات میں100 بلین کہکشائیں موجود ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے دماغ میںنیورون کی تعداد بھی 100 بلین ہی ہے، مگر ہماری کائنات کے حوالے سے اس سے زیادہ پیچیدہ شے کائنات کے اندر کائنات ہے۔ ہر کہکشاں تقریباً اوسط30,000 نوری سال کے قطر کی حامل ہے۔
ہماری کہکشاں یعنی Milky way کہکشاں کے اوسط سائز سے تھوڑی سی بڑی ہے اور اس کا قطر100,000 نوری سال ہے۔ مختلف کہکشائوں کے درمیان عمومی فاصلہ3بلین نوری سال کے برابر ہے۔ ہماری کہکشاں سے قریب ترین کہکشاں کو Andromeda galaxy کا نام دیا گیا ہے اور یہ ہماری کہکشاں سے 2.5 ملین نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔