• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف و حکایت … ظفر تنویر
اپنے اردگرد نظر ڈالئے تو آپ کو ہر شخص اپنے جذبات کے اندھے کنوئیں میں محصور دکھائی دے گا یہ وہ لوگ ہیں جو صرف ایک ہی بات سننا ،پڑھنا اور دیکھنا چاہتے ہیں یہ شاید کوشش بھی کریں تو انہیں مخالف دھڑے کی بات نہ سمجھ آتی ہے اور نہ ہی سنائی دیتی ہے اور یہ سب کچھ کوئی نیا نہیں بلکہ گزشتہ 70 برس سے یہی کچھ ہوتے آیا ہے۔ عام لوگ ہیں کہ ان کے پھیلائے گئے اس جال میں الجھتے جاتے ہیں پھنستے جاتے ہیں اور کوئی نہیں جو ان کو بتا سکے کہ جن لوگوں نے یہ جال پھیلا رکھے ہیں ان کے اپنے مفادات اور اپنی توقعات ہیں، ہمارے لیڈر ہیں تو ہر ایک کے دو چہرے اور دو زبانیں ہیں ایک چہرہ اور زبان وہ جو وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے استعمال کرتے ہیں اور ایک چہرہ (اور زبان) وہ جو اقتدار میں آتے ہی سجا لیتے ہیں اور ایسا بہروپ بھرنے میں سبھی شامل ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی سے مسلم لیگ ن تک اور تحریک انصاف سے مذہبی جماعتوں تک سبھی کو اس بہروپ کا تجربہ ہے اور سبھی یہ سب کچھ کر بھی چکے ہیں اور اب بھی کررہے ہیں آج اگر آپ سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا جائزہ لیں تو آپ کو ہر طرف سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی اس تقریر کی بحث یا بازگشت سنائی د ےگی یا پڑھنے کو ملے گی جس تقریر کی مواصلاتی تشہیر پر پابندی لگا دی گئی تھی اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عام لوگ اپنی دھرتی کے محافظوں سے بے انتہا پیار کرتے ہیں محبت کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو فوج میں بھیجنے کے خواب دیکھتے ہیں لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ پاکستان کے یہی عوام یہ بھی چاہتے ہیں کہ ملکی معاملات ملک کے آئین کے مطابق چلائے جائیں، اگر نواز شریف نے ایسا کچھ کہہ دیا ہے تو اس میں غلط کیا ہے، ہاں نواز شریف اور ان کی جماعت کی کوئی غلطی ہے تو یہ کہ آج وہ جن پر مداخلت کے الزامات لگا رہے ہیں آج سے چند ماہ پہلے انہوں نے ان کو ملازمت میں توسیع دینے میں اپنی ’’ہاں‘‘ کیوں شامل کی اور ایسا صرف وہ ہی نہیں کرتے رہے ہمارے وزیراعظم عمران خان بھی یہ روپ ہمیں دکھا چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کو کھنگالئے تو آپ کو وزیراعظم کے ایسے ایسے ویڈیو کلپ دیکھنے کو ملیں گے جن میں فوج کے خلاف استعمال کی گئی زبان نواز شریف کی نسبت کئی زیادہ سخت ہے لیکن چونکہ بقول ان کے وہ اور فوج اب ایک ہی صفحہ پر ہیں اس لئے اس ادارہ کے خلاف کہا گیا ایک بھی لفظ صرف بھارت دوستی اور نریندر مودی دوستی کا ہی نتیجہ ہوسکتا ہے، ابھی نواز شریف کی تقریر اور اس تقریر کے ڈانڈے بھارت سے ملانے کا شور تھما ہی نہ تھاکہ بابائے قوم حضرت قائداعظم کے مقبرہ پر مریم نواز کے شوہر کپتان (ر) صفدر کی طرف سے کی جانے والی نعرہ بازی کو ایک بہت بڑا مسئلہ بنادیا گیا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ اس سے مقبرہ کی بے حرمتی ہوئی ہے اور یہ کہنے والے وہ لوگ ہیں جو خانہ کعبہ کے عین سامنے اپنی جماعت کا جھنڈا لہرانے کو بے حرمتی نہیں سمجھتے وہی دوہرے معیار کی بات ہے آج یہ الزام لگانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران عمران خان نے جب بابائے قوم کمے مقبرہ پر حاضری دی تو مقبرہ کے چاروں اطراف پھیلے ہوئے لوگوں (پارٹی کارکنوں) نے نہ صرف عمران خان زندہ باد بلکہ وزیراعظم عمران خان کے نعرے لگائے، اگر وہ نعرے جائز تھے تو مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعروں میں کیا برائی ہے خدا کیلئے پاکستان کے عوام پر رحم کرو اور اپنی دوغلی پالیسیاں اور نت نئے بہروپ بند کرو کہ لوگوں کیلئے تو مہنگائی نے زندگی کے تمام در ہی بند کردیئے ہیں ایک اور بات جو ہمیں ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ حضرت قائداعظم کا مقبرہ کسی سائیں کا مزار، کوئی درگاہ یا مذہبی درسگاہ نہیں ایک ایسے رہنما کا جائے مدفن ہے جس نے عوامی قوت پر ہمارا ایمان پختہ کیا ہمیں ہمارے حقوق کا احساس دلوایا اور ان حقوق کے حصول کیلئے ایک علیحدہ ملک کی بنیاد رکھی۔ قائداعظم کا مقبرہ ہمارے لئے ایک سیاسی درسگاہ تو ہوسکتا ہے کسی سائیں کا مزار نہیں اسے اسی طرح رہنے دیجئے اور مذہب، عقیدت اور حرمت کے نام پر اس پر کوئی نیا ملمع نہ چڑھایئے جس طرح آپ نے ایک فلاحی جمہوری ریاست پر اپنی مرضی کے پردے اور چادریں چڑھا کر اس کی شکل ہی بگاڑ دی ہے۔
تازہ ترین