پاکستان کی داغ دار سیاسی تاریخ میں حکمرانوں نے اکثر اپنے سیاسی مخالفین کیخلاف غداری کا بیانیہ استعمال کیا ہے. اس کی ایک لمبی فہرست ہے.
لیکن ایسی کسی بحث کا کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ بھاری قیمت چکانا پڑی ہے.لیکن ہمیں ماضی سے سیکھنے کی عادت نہیں حالیہ ہفتوں میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے بعض متنازعہ بیانات اور اس کے بعد سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے حالیہ بیان نے پھر یہ بحث چھیڑ دی ہے اور حکومت ان کیخلاف کچھ اور بغاوت کے مقدمات پر غور کررہی ہے.
اس سے نہ صرف سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بحث میں تیزی آئی ہے بلکہ لگتا ہے کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں ملک میں سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھے گا.سابق وزیراعظم نواز شریف، سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور جے یو پی کے لیڈر مولانا انس نورانی بھی " غداروں کے کلب" میں شامل ہوگئے ہیں. جتنی جلدی یہ بحث ختم ہو، پاکستان کیلئے اتنا ہی اچھا ہوگا.
یہ دیکھنا دلچسپی کا باعث ہوگا کہ غداری کے ان الزامات پر آئندہ دنوں اورہفتوں میں پنجاب کا ردعمل کیا ہوگا جسے مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم میدان جنگ بنانا چاہتی ہیں. اگر ایاز صادق نے ایسا غیر ذمہ دارانہ بیان نہ دیا ہوتا تو پھر شاید حکومت کی طرف سے غداری کی بحث شروع کرنا نادانی ہوتی.
سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے بیان پر ہر طرف سے تنقید ہوئی لیکن جس طرح حکومت مسلم لیگ کے خلاف فضا بنانے کی کوشش کررہی ہے اور دوسری طرف مسلم لیگ نے جس طرح ایاز صادق اور نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے، اس سے یہ بحث ختم ہوتی نظر نہیں آتی.ایک زیادہ خطرناک بات ان کے خلاف پوسٹر اور بینر لگانا ہے. مسلم لیگ بھی اس مہم میں شامل ہوگئی ہے.
اس نے وفاقی وزیر فواد چودھری کیخلاف پوسٹر لگائے ہیں جنہوں نے ایاز صادق کے جواب میں ایسا متنازعہ بیان دیا جسے بھارتی میڈیا نے اٹھایا ہوا ہے. ایاز صادق کے بیان کا فوج کی طرف سے بھی سخت ردعمل آیا. ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل نے افتخار بابر نے وضاحت کی کہ ابھی نندن کو رہاکرنے کا فیصلہ سول اور فوجی قیادت کا مشترکہ تھا.
بھارتی میڈیا کو شاید ہمارے لیڈر بھارتیوں سے بھی زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں. تبھی ان کے جال میں پھنس کر ایک دوسرے کو غدار، بھارتی ایجنٹ اور مودی کا یار قرار دے رہے ہیں. ہم اکثر غداری اور بغاوت کو بھی خلط ملط کردیتے ہیں.
آئین کے آرٹیکل 6 کا اطلاق صرف اس کے خلاف ہوگا جو آئین کو ختم یا معطل کرے گا. البتہ بغاوت اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے. بعض وفاقی وزیر تو مسلم لیگ ن پر پابندی اور سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجنے کی باتیں بھی کررہے ہیں. پی ٹی آئی کیا قیادت پی ڈی ایم کی تحریک کے توڑ کیلئے اس بحث کو لمبا کرنا اور غداری کے بیانئیے کو اور پھیلانا چاہتی ہے.
پی ڈی ایم کے جلسے میں ابھی تین ہفتے رہتے ہیں لیکن مسلم. لیگ نے اپنے خلاف غداری کے بیانئیے کے جواب کیلئے پنجاب میں اپنے جلسے کرنے کا فیصلہ کیا ہے. سو خدشہ ہے حب الوطنی کے نام پر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آجائے.
ایاز صادق اور دوسری طرف فواد چوہدری کے خلاف بینروں کو متعصب بھارتی میڈیا اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرسکتا ہے. مسلم لیگ ن پہلے ہی تکلیف محسوس کرنے لگی ہے. گزشتہ دو روز میں پارٹی میں شگاف نظر آنے لگے ہیں.
سابق وزیراعلیٰ ثناءاللہ زہری اور ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ کی قیادت میں اس کی بلوچستان شاخ کی بغاوت کا امکان ہے. پنجاب کے بعض لیڈر بھی پارٹی چھوڑنا چاہتے ہیں. مسلم لیگ کی قیادت کا رویہ حیران کن ہے. بجائے اس کےکہ کوئٹہ جلسے کے سلسلے میں شکایت دور کی جاتی، پارٹی کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہہ دیا ہے کہ عبدالقادر بلوچ استعفیٰ دینا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی.
اتوار کو لاہور میں مسلم لیگ کی قیادت کا اجلاس ہوا جس میں جاری بحث اور پارٹی کی اپنی صفوں میں اختلافات پر تبادلہ خیالات ہوا. بلاشبہ پاکستان نے پلوامہ پر بالغ النظر موقف اختیار کیا اور ابھی نندن کی رہائی سول اور فوجی قیادت کا اجتماعی فیصلہ تھا. ایسی صورت میں ایاز صادق جیسے ٹھنڈے مزاج کے معقول سیاستدان کا ایسی بات کرنا، خواہ وہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بارے میں ہو، غیرذمہ دارانہ تھا۔