اقبال کے مجموعۂ کلام ’’بالِ جبریل ‘‘میں ایک مختصر سی نظم شامل ہے جس کا عنوان ہے : ’’خوشحال خاں کی وصیت ‘‘۔یہ نظم پشتو کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک (۱۶۸۹ء۔۱۶۱۳ء) سے متعلق ہے۔ اس نظم میں اقبال نے خوشحال خاں خٹک کی جاں بازی اورجد وجہد کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
لیکن مناسب ہوگاکہ پہلے خوشحال خاں خٹک کی زندگی اور کلام کا مختصر ذکر کردیا جائے تاکہ اس کی فکر اور’’ بالِ جبریل ‘‘میں شامل اقبال کی نظم کا پس منظر سمجھنے میں آسانی ہو۔ خوشحال خان خٹک ایک عجیب و غریب شخصیت کا نام ہے ۔ وہ جنگجو اورشکاری تھا لیکن دانش ور،ادیب و شاعر بھی تھا۔
بقولِ حنیف خلیل، خوشحال خان خٹک پشتو ادب کی وہ عظیم شخصیت ہے جس نے پشتو زبان اور ادب میں بیش بہا اضافے کیے بلکہ پشتو شاعری کے کلاسیکی دور کا باقاعدہ آغاز خوشحال خاں خٹک ہی سے ہوتا ہے۔پشتو ادب کی تاریخوں میں اس کی کئی کتابوں کا ذکر ملتا ہے جن میں سے بعض اب ناپید ہوچکی ہیں۔ پشتو کے بعض نقادوں نے خوشحال خان خٹک کو باباے پشتو شاعری قراردیا ہے۔
بعض نقادوں کا خیال ہے کہ خودی، شاہین اور مرد ِ مومن کے تصورات جو اقبال کی شاعری میں تواتر سے ملتے ہیں اس سے ملتے جلتے خیالات خوشحال خان خٹک کے ہاں بھی ہیں ۔ اقبال ہی کی طرح وہ انسان کی عظمت اور کائنات میں اس کے مقام کا قائل ہے اور اعلیٰ مقاصد کے حصول اور سخت کوشی کا سبق دیتا ہے۔اس کی ایک کتاب ’’باز نامہ ‘‘ کے عنوان سے ہے اور باز یا شاہین کو وہ اعلیٰ صفات اور شوکت کا حامل پرندہ قرار دیتا ہے۔
ان دونوں عظیم شعرا کے ہاں افکار کی یہ مماثلت و اشتراک حیر ت انگیز ہے۔ اقبال نے ظاہر ہے کہ خوشحال خاں خٹک کا پشتو کلام تو نہیں پڑھا ہوگا لیکن وہ بہرحال ان کے نام اور کام سے واقف تھے اورخوشحال خاں خٹک کی نظموں کا انگریزی ترجمہ (جو لندن سے شائع ہوا تھا )بھی شاید ان کی نظر سے گزرا ہوگا ۔ میر عبدالصمد نے لکھا ہے کہ خوشحال خان خٹک کے دیوان میں پشتو اور ہندی یا اردو کی تھوڑی سی ملی جلی شاعری نظر آتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنے دور کی اردو شاعری کا مطالعہ بھی کیا تھا۔
مغربی محققین نے خوشحال خاں کو’’ پشتو کا سپاہی شاعر‘‘ (soldier poet of Pashto) کہا ہے کیونکہ وہ مغلوں کی فوج میں منصب دار تھا اور اس نے شاہ جہاں کے دور میںمغلوں کی طرف سے کئی لڑائیاں بھی لڑی تھیں۔ البتہ سرداروں کی آپس کی رقابت اور دشمنی کے نتیجے میں وہ اورنگ زیب عالم گیر کی نظروں سے گرگیا۔ پشاور کا منصب دار مرزا عبدالرحیم (جو کابل کے گورنر کا نائب تھا )خوشحال خان خٹک کو اس کی غیور طبیعت اور خودداری کی وجہ سے پسند نہیں کرتا تھا۔ اس نے خوشحال خان کو کسی بہانے سے پشاور طلب کیا اور وہ اکیلا وہاں چلا گیا جہاں اسے گرفتار کرکے دہلی بھجوا دیا گیا۔
دہلی میں اسے قید کردیاگیا۔ بعدازاں اسے گوالیار اور رنتھمبوڑ کے قلعوں میں قید رکھا گیا۔ قید میں وہ بہت ملول رہا لیکن شاعری بھی کرتا رہااور اپنی اسیری کے حالات منظوم کیے۔ بالآخر رہائی عمل میں آئی۔ رہا ہونے کے بعد وہ کچھ عرصے تک تو مغلوں کا ساتھ دیتا رہا لیکن بعد میںان کا مخالف ہوگیا اور اس کے بعد مغل فوجوں کے خلاف طویل عرصے تک برسرِ پیکار رہا۔
خوشحال خاں خٹک جب مغلوں کا مخالف ہوگیا تو اس نے قبائل کو مغلوں کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کی اور اس کام میں نسلی تعصب کو بھی ابھارا۔ بقول غلام رسول مہرکے اقبال کو اس مسلک سے کوئی دل چسپی نہ ہوسکتی تھی کیونکہ وہ تو امت کی وحدت کے قائل تھے ، لیکن خوشحال خان کا جذبۂ آزادی ، طویل عرصے تک جد وجہد اور جاں بازی اقبال کے اپنے مخصوص نظریات سے قریب تھی۔خوشحال خاں نے وصیت کی تھی کہ میری موت کے بعد مجھے ایسی جگہ دفن کیا جائے جہاں مغل شہسواروں کے گھوڑوں کے سموں سے اڑنے والی خاک بھی میرے مزار تک نہ پہنچ سکے۔
اقبال کو خوشحال خان کا جذبہ اور اس کی آزادی کی جد وجہد کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ انھوں نے اس کی تعریف میں ایک نظم کہی جس میں اس کی وصیت کا ذکر کیا۔یہ نظم بالِ جبریل میں ’’خوشحال خاں کی وصیت ‘‘کے عنوان سے شامل ہے ۔اس نظم پر اقبال نے یہ حاشیہ بھی لگایا ہے : ’’خوشحال خاں خٹک پشتو زبان کا مشہور وطن دوست شاعر تھا جس نے افغانستان کو مغلوں سے آزاد کرانے کے لیے سرحد کے افغانی قبائل کی ایک جمیعت قائم کی ۔ قبائل میں صرف آفریدیوں نے آخر دم تک اس کا ساتھ دیا ۔اس کی قریباً ایک سو نظموں کا انگریزی ترجمہ ۱۸۶۲ء میں لندن سے شائع ہوا تھا‘‘۔
اگرچہ خوشحال خان خٹک مغلوں پر فتح نہ پاسکا لیکن اقبال کے خیال میں وہ مغلوں سے کم نہیں ہے کیونکہ مغلیہ سلطنت اس دور میں بھی بہرحال ایک عظیم سلطنت تھی اور خوشحال خان کا حوصلہ اور جذبہ ایسا تھا گویا وہ ستاروں کوتسخیر کرنا چاہتا تھا۔
اب پیش ہے اقبال کی نظم’’ خوشحال خاں کی وصیت ‘‘:
قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
مغل سے کسی طرح یہ کم نہیں
قہستاں کا یہ بچۂ ارجمند
کہوں تجھ سے اے ہم نشیں دل کی بات
وہ مدفن ہے خوشحال خاں کو پسند
اُڑا کر نہ لائے جہاں بادِ کوہ
مغل شہسواروں کی گردِ سمند
خوشحال خان خٹک کی شاعری میں خودی، خودداری، جد وجہد اور حریت و آزادی کا پیغام ملتا ہے اور یہی اقبال کا پیغام بھی تھا۔