ایڈیٹرانچیف جنگ جیومیرشکیل الرحمٰن کی34 سال پرانےنجی پراپرٹی کیس میں ضمانت منظور کرلی گئی۔
جنگ جیو کے ایڈیٹر انچیف میرشکیل الرحمٰن کی سپریم کورٹ میں درخواست ضمانت پر سماعت جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ نے کی، سپریم کورٹ کی بینچ میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین شامل ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیاکہ یہاں لاءافسروں کوبھی اضافی زمین اسی قیمت پرملی، انکےخلاف نیب کامقدمہ بنا؟
میر شکیل الرحمٰن کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے عدالت میں دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرے موکل پر قومی خزانے کو ایک پینی کا بھی نقصان پہنچانے کا الزام نہیں،نیب نے میرشکیل کو 34سال پرانےنجی پراپرٹی کیس میں9ماہ پہلے گرفتارکیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک ہی دن وارنٹ جاری کیے اور اسی روز منظوری دی گئی، نیب نےسابق ڈی جی ایل ڈی اے،ڈائریکٹرلینڈ سمیت کوئی ملزم گرفتارنہیں کیا۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہیہ بہت افسوس ناک کہانی ہے، کیا صوبے کو کوئی نقصان ہوا؟
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ایل ڈی اے میرشکیل کےخلاف شکایت کنندہ ہےنہ اس نے کوئی کارروائی کی،اس جگہ ایل ڈی اےسےنقشہ منظورکروا کے مکان بنایا،ایل ڈی اے نےواجبات نہیں مانگے، الزام لگایا4کنال12مرلےاضافے زمین کی قیمت مارکیٹ ریٹ کے مطابق نہیں دی۔
انہوں نے کہا کہ اضافی زمین کی قیمت 1987 میں ادا کردی گئی تھی، 34 سال بعد نوٹس جاری کرکے میرشکیل الرحمٰن کوگرفتارکرلیاگیا۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ان پر گلیاں پلاٹ میں شامل کرنے کا الزام ہے۔
اس پر وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ جن کو یہ گلیاں کہتے ہیں یہ وہی اضافی لینڈ ہے، اس وقت 1986 میں گلیاں تھیں ہی نہیں، کھیت کھلیان تھے، ماسٹرپلان1990میں منظورہوا،1987 میں گلیاں پلاٹ میں ڈالنےکا الزام کیسےلگایا جاسکتا ہے؟
جسٹس یحییٰ نےنیب پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہمیرشکیل نےجودستاویزات دکھائیں یہ درست ہیں یاغلط؟
نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ میرشکیل الرحمٰن کی دستاویزات درست ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے پھر سوال کیا کہیہ بتائیں پھرآپ نے دوسرے لوگوں پرنیب کاریفرنس کیوں نہیں بنایا؟ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مارکیٹ ریٹ کا تعین بعد میں کیاگیا۔
جسٹس مشیرعالم نے استفسار کیا کہ اس وقت کسی اورسے بھی مارکیٹ پرائس لی گئی؟ کیا آپ نے کسی اورکوبھی نوٹس دیاکہ وہ اضافی رقم دے؟
نیب پراسیکوٹر نے جواب دیا کہ ریکارڈ سے ایسا ثابت نہیں ہوتا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے پھر سوال کیا کہ یہ بتائیں کہ کیا ہم اس درخواست ضمانت پر فیصلہ جاری کریں؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نےنیب پراسیکیوٹر سےمکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بہتر ہوگا آپ درخواست ضمانت کی مخالفتنہ کریں۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہہم لکھ کر دے دیتے ہیں کہ درخواست ضمانت کی مخالفت نہیں کرتے۔