سندھ ہائیکورٹ نے آرزو فاطمہ کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا، عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ کم عمری کے باعث آرزو قانونی طور پر شادی نہیں کرسکتی ہے۔
تحریری فیصلے میں عدالت نے شادی کروانے کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ چلانے کا حکم دیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ شادی کروانے والوں کی نشاندہی لڑکی کے والد نے کردی ہے، جبکہ میڈیکل رپورٹ، نادرا، اسکول ریکارڈ، برتھ سرٹیفکیٹ سے آرزو کی کم عمری ثابت ہوتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ والدین کی گواہی سے آرزو کی کم عمری ثابت ہوتی ہے، 18برس سے کم عمر میں شادی کرنا قانوناً جرم ہے۔
تحریری فیصلے میں عدالت نے حکم دیا کہ لڑکی کو علی اظہر کے حوالے نہیں کیا جا سکتا، قانونی طور پر آرزو کے لیے دو آپشن ہیں۔ آرزو قانونی طور پر والدین یا شیلٹر ہوم میں رہ سکتی ہے۔
والدین کے پاس جانے سے انکار کے بعد لڑکی کو شیلٹر ہوم بھیج دیا گیا۔
عدالت نے آرزو کی بہتر تربیت و حصول تعلیم کے انتظامات کرنے کی ہدایت کردی ہے۔