اسلام آباد (انصار عباسی) پنجاب سے تعلق رکھنے والی خاتون ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ڈاکٹر ساجدہ احمد نے چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو لکھے ایک کھلے خط میں کہا ہے کہ عدلیہ کا حصہ بننے کی بجائے بہتر یہ ہوتا کہ وہ اپنے گائوں میں چوپایہ پالتیں اور اُپلے تھونپتیں؛ کیونکہ عدلیہ کا حصہ بننے کی وجہ سے انہیں ’’نام نہاد‘‘ وکلاء کی گندی گالیاں اور توہین برداشت کرنا پڑتی ہے۔
پنجاب میں ماتحت عدالتوں کے ججوں بشمول خواتین کے ساتھ کیے جانے والے سلوک سے مایوس اس خاتون جج نے یہ تک کہا ہے کہ اگر اسلام میں خودکشی حرام نہ ہوتی تو وہ خود کو سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے خودکشی کر لیتیں کیونکہ جج کی حیثیت سے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو روزانہ کی بنیاد پر گالیوں، توہین اور ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ان کے سینئرز نے ضلعی عدلیہ کے ججوں کو اس توہین سے بچانے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ ڈاکٹر ساجدہ احمد وہی با ہمت خاتون ہیں جنہوں نے عدلیہ تحریک میں آزاد عدلیہ کے حق میں کھل کر ساتھ دیا تھا جس کی وجہ سے انہیں اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے غصے کا سامنا کرنا پڑا تھا اور انہیں بھکر ٹرانسفر کر دیا گیا تھا۔ فی الوقت وہ فتح جنگ اٹک میں ایڈیشنل سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ جج ہیں۔
’’اگر مجھے عدالت میں خاتون جج کی حیثیت سے نام نہاد وکلاء سے توہین اور گندی گالیاں برداشت کرنا ہیں تو میرے لیے بہتر تھا کہ میں اپنی زندگی کے پچیس سال اعلیٰ تعلیم کے حصول میں لگانے کی بجائے عام پاکستانی لڑکیوں کی طرح بیس سال کی دہائی میں شادی کر لیتی اور اپنے والدین کا قیمتی وقت اور پیسہ پندرہ سال تک اسلام آباد میں اعلیٰ تعلیم کے حصول پر برباد نہ کرتی۔
اچھا ہوتا کہ میں چوپایے کو چرانے کا کام کرتی، اپلے تھوپتی، اپنی کاشتکار فیملی کی مدد کرتی اور اسلام آباد کی روشنیوں کی بجائے پریشانیوں اور مصائب سے پاک زندگی گزارتی۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’اس عظیم پیشے کو غیر پیشہ ور افراد اور کالی بھیڑوں نے ہائی جیک کر لیا ہے۔
وکلاء کے عدالتوں اور پریزائڈنگ افسر کی موجودگی میں عام عوام، پولیس والوں پر زبانی و جسمانی حملے معمول بن چکے ہیں، یہ سب کچھ آپ کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔‘‘
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’بدقسمتی ہے کہ ہم وکلاء تحریک کے ثمرات کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے، قانون کی بالادستی کے عظیم مقصد کے حصول میں ناکام رہے اور ہمارا تشخص اس وقت دنیا نے خراب ہوتے دیکھا جب لاہور بار ایسوسی ایشن کے وکلاء نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی (پی آئی سی) پر اس وقت حملہ کیا جب وہاں دل کے مریضوں کی جان بچائی جا رہی تھی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اگر ضلعی عدلیہ کی شکایات کا ازالہ نہ کیا گیا تو ججوں کو سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ، یورپی کمیشن برائے ہیومن رائٹس، ایمنسٹی انٹرنیشنل ہیومن رائٹس واچ کمیشن، انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار مین اینڈ ویمن ججز، انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن آف لائرز میں درخواست دائر کرنا ہوگی جس میں پاکستان میں شرپسند وکلا کی کرتوتوں اور ججوں کیخلاف ان کی بدتمیزیوں کو نمایاں کیا جائے گا جو روزانہ کی بنیاد پر یہاں ہو رہا ہے بالخصوص پنجاب کی ضلعی عدالتوں میں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ضلعی عدالتوں کا اصول ہے ’’عزت نہیں تو کام نہیں‘‘ انہوں نے کہا کہ جج صاحبان سب کو انصاف فراہم کرتے ہیں لیکن انصاف فراہم کرنے والوں کو کون انصاف دے گا۔
انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ضلعی بارز میں موجود گندے اور گھنائونے عناصر اور غیر پیشہ ور وکلاء کیخلاف تعزیراتِ پاکستان کے سیکشن 228؍ کے تحت اور توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی۔
انہوں نے اپنے اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ضلعی عدلیہ کے ججز جانتے ہیں کہ ان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس کی بجائے ان کے سینئر عہدیدار ان کی سرزنش کریں گے کہ آپ دانشمندی کے ساتھ مسائل کیوں نہیں حل کرتے یا پھر آپ کو اپنی عدالت سنبھالنا نہیں آتی؟ وغیرہ۔
سوال یہ ہے کہ ایسے غیر پیشہ ور وکلاء کیخلاف ریفرنسز اور شکایات پنجاب بار کونسل اور پاکستان بار کونسلز کو کیوں نہیں بھیجی جاتیں کہ ان کا لائسنس پریزائڈنگ افسر کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر بدتمیزی اور بدسلوکی کا جائزہ لیتے ہوئے عارضی یا مستقل طور پر معطل کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا، جناب، یہ جرم عوام کیخلاف ہے کہ عدالت میں کسی جج کو گالی دی جائے، اسے دھمکایا جائے یا اسے عدالتوں میں مارا پیٹا جائے، تو آخر ایسے گھمنڈی وکلاء کیخلاف پٹیشن صوبائی اور وفاقی محتسب میں کیوں نہ بھیجی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ مقامِ کار پر ہراسگی کا کیس ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پیشہ ور وکلاء ایسے غیر پیشہ ور وکلاء کے دبائو میں ہیں تو آخر سالانہ انتخابات میں وہ انہیں ووٹ دیتے ہی کیوں ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ حالیہ برسوں کے دوران پنجاب میں تقریباً ایک درجن سے زائد نوجوان، پرجوش ضلعی عدالتوں کے جج صاحبان کو ہلاک کیا جا چکا ہے لیکن کوئی بھی ان کی ہلاکت کی وجہ پر دھیان نہیں دیتا۔
نوجوان سینئر سول پاک پتن جج مسٹر بدیع الزماں کی تازہ ترین ہلاکت کا واقعہ بھی سب کے سامنے ہے، اس واقعے کی وضاحت سامنے آنا چاہئے کہ وہ اچانک برین ہیمریج کی وجہ سے کیوں انتقال کر گئے؟ اگر ہمیں اسی طرح وکلاء کی ڈانٹ ڈپٹ، گالیوں اور ذہنی و جسمانی ٹارچر کا سامنا کرنا ہے اور آپ ہمیں، ہمارے اور ہمارے خاندان کے وقار اور توقیر کو بچا نہیں سکتے تو ہم وہ تمام مراعات واپس کرنے کو تیار ہیں جو ہمیں دی گئی ہیں جیسا کہ گاڑی، لیپ ٹاپ، اضافی تنخواہ وغیرہ لیکن اس کی قیمت ہماری یا ہمارے خاندان کی عزت نہیں کیونکہ عدالتوں میں مرد و خواتین ججوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں مجبور ہوں، مایوس اور پریشان بھی کہ اپنی تعلیمی اسناد ایک ایک کرکے عزت مآب لاہور ہائی کورٹ کے سامنے نذر آتش کر دوں یا پھر احتجاجاً سپریم کورٹ کے سامنے تاکہ 23؍ کروڑ عوام میں خواتین کو اتنا حوصلہ ملے کہ وہ آئیں اپنے جوش اور ایمان کے ساتھ کسی کی بہن، بیٹی یا بیوی یا ماں بن کر اپنے وقار اور تکریم کے ساتھ اس عظیم قوم کی خدمت اس پیشے میں رہتے ہوئے کر سکیں جس کی اب قدر نہیں رہی۔