جب کہیں کسی ہنگامے یا فساد کا خطرہ ہوتا ہے تو خبر آتی ہے کہ’’ نقص ِامن ‘‘ کے خطرے کے پیش ِ نظر پولیس کو ’’الرٹ ‘‘ کردیا گیا ہے ۔ قطعِ نظر اس سے کہ اردو کے جملے میں انگریزی کے لفظ الرٹ کے استعمال کی کیا ضرورت پیش آگئی جبکہ اردو میں ا س کا مترادف (چوکنا یا ہوشیار )موجود ہے ، سرِ دست لفظ ’’نقص‘‘ کے غلط استعمال کی طرف توجہ دلانی ہے۔
عربی کے لفظ نقص کا درست تلفظ نَقص (یعنی نون پر زبر) ہے۔ البتہ اردو میں بعض لوگ نون پر پیش کے ساتھ (نُقص) بھی بولتے ہیں ۔لیکن شان الحق حقی صاحب نے ’’فرہنگ ِ تلفظ ‘‘ میں اس کاتلفظ نون پر زبر کے ساتھ ہی دیا ہے ۔نَقص کے اصل معنی ہیں کمی ، خسارہ،گھاٹا ،نُقصان ۔نقص کا لفظ اردو میں عیب یا خامی کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ المنجد میں لکھا ہے کہ نَقص اورنُقصان میں یہ فرق ہے کہ نقصان کا لفظ دین یا عقل کے لیے استعمال نہیں کرسکتے ۔ عقل میں نقص ہوتا ہے ، کاروبار میں نقصا ن ہوتا ہے۔بالعموم یوں کہتے ہیں کہ اس چیز میںیا کام میں نقص ہے (کمی ہے یا عیب ہے)۔ لیکن جب مال چلا جائے تو کہتے ہیں نقصان ہوگیا۔
عربی میں ایک اور لفظ ہے :نَقض(نون پر زبر کے ساتھ)۔ اس کے املا میں صاد(ص) نہیں ، ضاد (ض) ہے اور اس کے معنی ہیں : ٹوٹ پھوٹ ، شکست و ریخت ( لفظ شکست کو اب ہم ہار یعنی جیت کی ضد کے طور پر برتتے ہیں لیکن اس فارسی لفظ کے اصل معنی ٹوٹ پھوٹ ہی کے ہیں۔ شکست فارسی کے مصدر شکستن سے ہے جس کے معنی ہیں ٹوٹنا )۔اسی لیے نقصِ امن کی ترکیب درست نہیں ہے۔ یہ دراصل نقضِ امن کا بگاڑ ہے۔ جب کوئی ہنگامہ یا دنگا فساد کرتا ہے تو وہ امن میں کمی نہیں کرتا بلکہ وہ امن کو توڑتا ہے اور یہ عمل نقضِ امن ہے ناکہ نقصِ امن۔ مثلاً : نقضِ امن کے خطرے کے پیشِ نظر پولیس کو چوکنا کردیا گیا ہے۔ اردو لغت بورڈ نے بھی اپنی لغت میں واضح کیا ہے کہ درست املا نقضِ امن ہے ناکہ نقصِ امن۔ اردو میں نقضِ بیعت (بیعت توڑنے کا عمل) اور نقضِ عہد (وعدہ توڑنے کا عمل) جیسی تراکیب بھی رائج ہیں۔ مختصراً یہ کہ درست ترکیب نقضِ امن ہے ناکہ نقصِ امن ۔
جس میں نقص ہو وہ ناقِص ہے۔ اگر کسی چیز میں کچھ کمی رہ جائے یا خرابی ہوجائے تو اسے بھی ناقص (ص کے ساتھ)کہتے ہیں۔ جو چیز کسی چیز کو توڑے اسے ناقِض (ض کے ساتھ)کہتے ہیں۔ ناقض کی مونث ناقضہ ہے اور ناقضہ کی جمع نواقض ہے۔ جن باتوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے انھیں نواقضِ وضو کہتے ہیں۔ نقص اور نقض والی غلطی وضو توڑنے والی چیزوں کے بیان کے ضمن میں بھی ہوتی ہے جب دینی کتابوں میں کاتب نواقضِ وضو کو نواقصِ وضو لکھ دیتا ہے(یعنی ض کی بجاے ص) حالانکہ نواقص (ناقصہ کی جمع )کے معنی ہیں وہ چیزیں جن میں کچھ کمی ہو ، ناقص چیزیں ۔ لیکن وضو میں کمی نہیں ہوتی، بلکہ یہ جاتا رہتا ہے یعنی وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لیے یہاں نواقصِ وضو نہیں نواقضِ وضو لکھنا چاہیے۔