• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد فاروق دانش

ہمارا معاشرہ مختلف اندازسے روبہ زوال ہے ۔ اردگرد کا جائزہ لیں تو حالات بہترنظر نہیں آتے۔سماج کی ترقی و تنزلی کی تقدیر نوجوان نسل کے اعلیٰ و ارفع کرداروں پر منحصر ہوتی ہے، لیکن کیا کہا جائے کہ نسل نواخلاقی بے راہ روی کی جانب گامزن ہے۔ اخلاقی گرواٹ کی مثال بننے والی قومیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیںکہ نوجوان اپنے حدف سے ہٹتے جارہے ہیں۔وہ اب آسمان کی وسعت چھونے کا مطلب کچھ اور لے رہے ہیں۔ 

انہیں اپنا ہدف معلوم ہی نہیں کہ انہیں اپنے لیے ، اپنے والدین اور ملک کے لیے کرنا کیا ہے ، کن راستوں پر چل کر وہ اپنی منزل پاسکیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کا نوجوان پڑھنے لکھنے میں آگےبڑھ رہا ہے لیکن ساتھ ہی تباہی کے راستے پر بھی گامزن ہیں۔ٹیکنالوجی کے دور میںحاصل ہونے والی جدید سہولیات نے ان کو خود سر ، ضدی اور اپنی بات ہر صورت منوانے والا بنادیا ہے۔ قوم کے سرپرست، والدین، رہنماسب اس اُلجھن کا شکار ہیں کہ اس تباہی کا سبب کس کو گردانیں۔ سوشل میڈیا کو کوسیں، اسمارٹ فون کو الزام دیںیا انٹرنیٹ کی آسان فراہمی کو یا پھر تربیت کی اور صحبت کو؟

٫ اس میں کوئی شک نہیں کہ تیس،پنتیس سال پہلے ہماری اخلاقی اقداریں تھیں۔ محدود وسائل کے باوجود لوگ اپنی زندگیوں سے مطمئن تھے۔ لیکن جیسے ہی انٹرنیٹ ،کیبلز ,سوشل میڈیا کے ذرائع آئے ۔ نوجوانوں کے رویے کو بدل گئےاور آج وہ اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو گئے ہیں۔پہلے نوجوان ،بزرگوں کی نصیحتوں کو توجہ کےساتھ سنا کرتے تھے، ان سے بات کرتے وقت نظریں نیچی ہوتی تھیں لیکن آج بے دلی سے ان کی بات سنتے اور آنکھ سے آنکھ ملا کر گفتگو کرتے، ، ہر بات کا نہ صرف جواب دیتے بلکہ بد زبانی بھی کرتے ہیں۔ بزرگوں کا احترام کرنے کی بجائےتلخ رویہ اختیار کرنے لگے ہیں۔ 

ان کی نصیحتوں کو لائق اعتنا سمجھتے اور ان کی باتوں کو نظر انداز کرنا معمول ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ نوجوان نسل،بڑوں کا احترام جیسے بھول ہی گئی ہے۔ اپنے گھروں میں وقت دینے کے بجائے دوست احباب میں وقت ضائع کررہے ہیں۔اس اخلاقی پستی کی اہم وجہ ماحول کا اثر بھی ہے۔ بغاوت کا عنصر ان کی طبیعت میں سرائیت کر رہاہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑاکر کےکتنے ہی نوجوان ،والدین کو چھوڑکر گھر سے راہ فرار اختیار کر گئے۔ہمارے آباؤ اجداد سے مشترکہ خاندانی نظام چلا آرہا تھا، جس میں ساتھ رہنے والے بزرگ بچوں اور نوجوانوں کو اچھے اور برے کی تمیز سکھاتے تھے ، مگر افسوس کہ یہ نظام آج مفقود ہوتا جارہا ہے ۔مغربی تقلید کے چکر میں مشرقی تہذیب سے دور ہوتےجارہے ہیں۔

مغربی تہذیب، برق رفتاری سےہماری تہذیب کو متاثر کر رہی ہے، جہاں انٹرنیٹ اور ماڈرن انفارمیشن ٹیکنالو جی کے ذریعے مغربی کلچر پروان چڑھ رہا ہے وہیں نوجوانوں کی سوچ میں بھی تبدیلیاں پیدا ہو گئ ہیں۔ اپنے مستقبل کی فکر کرنے کے بجائے وہ اپنا بیشتر وقت موبائل پر مختلف گیم کھیلنے میں صرف کرتے ہیں ایسی ویڈیوز دیکھتے ہیں جو ان کے ذہنوں پر منفی اثرات پیدا کرتی ہیں۔ان میں غصہ، جنون بڑھتا جارہا ہے ،تعلیم سے دوری بڑھتی جارہی ہے۔بیش تر نوجوان لڑکیوں کا بھی یہی حال ہے۔

ان کے ہاتھوں میں ہمیشہ سیل فون ہوتا ہے، جس کے ذریعہ وہ فیس بک ، انسٹا گرام وغیرہ میں مشغول رہتی ہیں اور یہ سلسلہ ہر رات دیر گئے تک جاری رہتا ہے، گرچہ ایسے نوجوان بھی ہوں گے جوان خرابیوں سے محفوظ ہوں گے لیکن بیشتر بگڑے ہوئے نظر آتے ہیں اس میں قصور ان نوجوانوں کا بھی نہیںبلکہ والدین ، اساتذہ اور ہمارا کھوکھلا نظامِ تعلیم بھی ہے۔ تعلیمی اداروں میں تعلیم تو دی جاتی ہے، مگر نہ تربیت کی جاتی ہےاور نہ اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہے ۔سگریٹ نوشی ، مختلف نشہ آور اشیاء کے مضر اثرات سے نوجوانوں میں اخلاقی گراوٹ پیدا ہورہی ہے اگر نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت نہ کی گئی تو ان کے مستقبل کو خطرات لاحق ہوسکتےہیں۔

والدین اور اساتذہ انھیںاچھی تعلیم و تربیت اور بہتراخلاق وکردار سے نوازیں۔ اچھا انسان بنانے پر توجہ دیں ،خراب صحبت سے بچائیں لیکن نوجوانوں کی اخلاقی تربیت صرف والدین، علماء یا اساتذہ کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ خود نوجوانوں میں بھی اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ وہ کس راہ پر گامزن ہیں، اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔

والدین کی فرماں برداری سیکھیں۔ اپنے اندر مثبت خیالات پروان چڑھائیں اور زندگی میں مقاصد طے کرتے ہوئے حرکت و عمل اور جہد مسلسل کے ساتھ انھیں حاصل کریں۔ مایوسی اور نا امیدی سے بچیں۔ زندگی کی راہوں میں ترقی کرتے ہوئے اپنا ‘اپنے والدین اور اساتذہ کا نام روشن کریں۔ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کریں، آنے والی نسلوں کے لئے مشعل را ہ بنیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زیادہ علم سیکھنے کے بجائے تھوڑا ادب وآداب بھی سیکھیں اور سیکھا ئیں۔ ورنہ آئے دن امتحانات میں کامیابی کا تناسب تو بڑھتا چلا جائے گا مگر اخلاقیات کی کمی ہوتی رہے گی اور پھر جو کچھ ہوگا اس کا خمیازہ والدین سمیت پورا معاشرہ بھگتے گا۔

تازہ ترین