ناروے میں تعینات پاکستان کے سفیر ظہیر پرویز خان نے کہنہ مشق کشمیری رہنماء سردار شاہنواز خان کی وفات پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
سفیر پاکستان نے مرحوم کے فرزند اور کشمیر اسکینڈے نیوین کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سردار علی شاہنواز خان کے نام اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ انہیں کہنہ مشق کشمیری رہنماء اور آپ کے والد سردار شاہنواز خان کی وفات پر بہت صدمہ ہوا ہے۔
پیغام میں کہا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو ان کی جدائی برداشت کرنے کا حوصلہ دے۔
سفیر پاکستان ظہیر پرویز خان نے اپنے ایک سوشل میڈیا پیج پر بھی تعزیتی پوسٹ میں سردار شاہنواز خان کو ان کی کشمیریوں کے لیے جدوجہد پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی رحلت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
سفیرِ پاکستان نے سوشل میڈیا پر بھی مرحوم سردار شاہنواز خان کی تصویر کے ساتھ ایک تعزیتی پوسٹ شائع کی ہے جس میں مرحوم آزاد جموں و کشمیر کا پرچم ہاتھ میں اٹھائے ہوئے ایک تقریب میں شریک ہیں۔
سردار شاہنواز خان کا یہ خاصہ تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کے حوالے سے جلسوں اور جلوسوں میں ضرور شرکت کرتے تھے اور ان کے ہاتھ میں اکثر کشمیر کا پرچم ہوا کرتا تھا۔
انہوں نے کشمیریوں کی فلاح کے لیے ناروے میں کشمیر ویلفیئر سوسائٹی بھی بنائی تھی۔
نارویجن پاکستانی کمیونٹی اور پاکستان اور آزادکشمیر کی متعدد اہم شخصیات نے سردار شاہنواز خان کی وفات پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
پی پی پی ناروے کے صدر جہانگیر نواز گلیانہ، جنرل سیکریٹری علی اصغر، سینئر نائب صدر اسمٰعیل سرور بھٹیاں اور سینئر رہنماؤں میاں اسلام و جاوید اقبال اور کمیونٹی رہنماء مرزا انور بیگ نے بھی اپنے الگ الگ بیانات میں سردار شاہنواز خان کی وفات پر افسوس ظاہر کیا ہے۔
سردار شاہنواز خان جو غازی ملت سردار ابراہیم خان سابق صدر آزاد کشمیر کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے، کئی سالوں سے ناروے میں مقیم تھے اور ناروے میں رہ کر انہوں نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
وہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو سے بہت متاثر تھے اور ان کا شمار پیپلز پارٹی ناروے کے اہم رہنماؤں میں بھی ہوتا تھا۔
سردار شاہنواز خان جو تین دن قبل 83 سال کی عمر میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں وفات پاگئے تھے، کی میت کو پیر کے روز آزاد کشمیر لے جایا جائے گا، جہاں ان کے آبائی گاؤں سردی بھالگراں، راولاکوٹ میں تدفین ہوگی۔
اگرچہ وہ تین ہفتے قبل کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے لیکن ناروے کے ایک اسپتال میں علاج معالجے کے بعد انہیں کورونا سے نجات مل گئی، البتہ جسمانی کمزوی کی وجہ سے وہ جانبر نہ ہوسکے۔