بارہاذہن میں یہ سوال اٹھتا ہےکہ آخر ہم دنیا کی ترقی یافتہ ومہذب اقوام جیسےکیوں نہیں؟ ایک طرف ہماری خود پسندی کا یہ عالم ہےکہ دنیا کی امامت کے حق دار صرف اور صرف ہم ہی ہیں،جوبائیڈن اور میکرون کو ہم سے پوچھ کر اپنی قومی یا عالمی پالیسیاںتشکیل دینی چاہئیں...دوسری طرف درونِ خانہ حالت یہ ہےکہ جتنا فکری و نظری انتشار اس وقت ہماری قوم میں ہے شاید ہی کسی دوسری قوم میں ہو گا۔ دنیا کی کسی بھی مہذب قوم کے حالات ملاحظہ فرما لیں، بچہ اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتا ہے، آگے چل کر اپنے کیریئر کی مناسبت سے وہ حسبِ ذوق یا ضرورت کوئی بھی زبان سیکھ سکتا ہے جبکہ ہماری صورتحال روز اول سے انوکھی ہے۔ہمارا بچہ چاہے پنجابی ،سندھی، بلوچ یا پختون ہے، اسے سپارہ پڑھنے کے لئے بھیج دیا جائے گا ۔یہ معصوم جونہی ذرا بڑا ہوتا ہے تو حقیقت پسند لوگ اس کے پاس آتے اور یہ بتانا شروع کرتے ہیں کہ دیکھ بیٹا اگر تو نے ترقی کرنی ہے زندگی میںکوئی مقام حاصل کرنا ہے، سماجی عزت و توقیر کے ساتھ پڑھا لکھا کہلانا ہے تو تو شروع سے ہی انگلش زبان پر دسترس حاصل کر لے ورنہ زندگی بھر روتا رہے گا۔ دوسری جانب قومی زبان والے چونکہ پروپیگنڈا کرنے کے بادشاہ ہوتے ہیں چنانچہ وہ موقع بے موقع اس معصوم کی برین واشنگ کے لئے تاڑ میںرہتے ہیں ۔ درویش کو کسی تعلیمی ادارے میں منعقدہ قومی زبان کی کانفرنس میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں تقریباً تمام مقررین قومی زبان کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے ۔ کچھ نوجوانوں نے اس ناچیز سے پوچھا، کیا واقعی ہمیں انگریزی کی بجائے قومی زبان کو فوقیت دینی چاہیے؟ عرض کی، میرے بچو! آپ اُردو ضرور پڑھیں لیکن اگر آپ نے مقابلے کا امتحان دینا ہے،میڈیکل، انجینئرنگ یا قانون کی ڈگری حاصل کرنی ہے تو پھرآپ کو تمام کتابیں انگریزی میں پڑھنی پڑیں گی۔
بات شروع ہوئی تھی کہ ہم دیگر ترقی یافتہ مہذب اقوام کے ہم پلہ کیوں نہیں ہیں؟ کہنے کو تو ہم اسلامی جمہوریہ ہیں مگر ہمارے اندر رتی بھر اسلامی اخلاقیات ہے نہ جمہوریت! اسی پر اتنا زیادہ فکری و نظری انتشار ہےکہ الامان و الحفیظ ۔ چلیں سارے رولے سے بچنے کے لئے ہم کہے دیتے ہیں کہ اعلیٰ اخلاقیات کا نام ہی مذہب ہے تو پھر سماج میں اتنی منافرت ، جھوٹ، فراڈ، بے ایمانی اور منافقت کیوں ہے؟.......اس ایشو پر کہنے کو ہمارے پاس بہت کچھ ہے لیکن’’ جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں‘‘ ۔ سلامتی اسی میں ہےکہ اس حوالے سے کچھ بھی مت بولایا لکھا جائے ۔رہ گئی بیچاری جمہوریت، اس معصومہ کو یہاں ’’طاقتوروں‘‘ نے اپنی لونڈی بنا رکھاہے جب عوامی احتجاج کا طوفان اٹھتاہے تو اسے نہلاتےدھلاتے ہوئے گھر کی مالکہ بنا کر چبوترے پر بٹھا دیا جاتا ہےمگر زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ ’’وہی حیلے ہیں پرویزی‘‘ یا ایوبی۔ جس سماج میں سیاست کو گالی بنا کر پیش کیاجائے اور سیاست دانوں کو چور یا بدعنوان ثابت کرنے کے لئے باضابطہ کمپینز ڈیزائن کی جائیں وہاں جمہوریت کیا خاک پنپے گی؟ جہاں چند افراد یا گروہوں کے گرد نورانی ہالے بنا دیے جائیں وہاں احتسابی نعرہ سوائے فراڈ کے اور کیا کہلائے گا مگر نہیں جناب !یہاں آپ کی حب الوطنی اور ملک و قوم سے غداری کاایشو کھڑا ہو جائے گا‘ توبہ کریں۔’’بھرم کھل جائے ہے ظالم تیرے قامت کی درازی کا .....اگر اس طرۂ پُر پیچ وخم کاپیچ وخم نکلے‘‘ یہاں بربادی کاسب سے بڑا نشان ملے گا جس کا نام ہے آزادیٔ اظہار کا فقدان۔ یہاں ایسے مقدسات ہیں جن کے متعلق زبان کھولنا قابلِ گردن زدنی جرم ہے۔ آج اکیسویں صدی کے گلوبل ویلیج میں گھٹن کے شکار سماج کو کس جبر کے ساتھ قائم رکھا جا رہا ہے، اس کا ادراک ہر وہ صاحبِ شعورکر رہا ہے جس کی جبری قوتوں سے پنجہ آزمائی ہے، جسے اس دلدل سے نکلنے نہیں دیا جا رہا۔ وہ ہر لمحہ افسردگی و بے بسی کے ساتھ یہ سوچتا ہےکہ آخر ہماری جمہوریت پولیو زدہ یا کورونا وائرس کی شکار کیوں بنا دی گئی ہے؟ کہنے کو موجودہ دور بھی جمہوری ہی ہے لیکن بدترین آمریت یا مارشل لا ز کے تمام ’’اوصاف حمیدہ‘‘ بدرجہ اتم اس میں کیوں موجود ہیں؟ باضمیر لکھاری رو رہے ہیں کہ ایسی جبری گھٹن توآمریت میں بھی نہ تھی۔ ہاتھ اٹھا کر زبانی طور پر کچھ کہیں نہ کہیں لیکن سینے کی ہوک یا جلن مناجات بن کر اٹھ رہی ہے کہ پروردگار اس گھٹن اور جبر سے اہل وطن کی جان کب چھوٹے گی؟ جنتا کو روتے اور آہیں بھرتے سات دہائیاں گزر گئیں‘ آخر کب آئین، جمہوریت اورانسانی حقوق کی حرمت و ناموس بحال ہو گی؟ آخر کب ہم دنیا کی ترقی یافتہ و مہذب اقوام کی مانند نارمل اور پرسکون زندگی گزارنے کے قابل ہوں گے۔ بظاہر ماں، ماں ہی ہوتی ہے چاہے حقیقی ہو یا سوتیلی مگر کرتوت مختلف ہوتے ہیں۔