• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک نوجوان اپنے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ ایک مہنگےریستوراں میں کھانا کھانے لے گیا۔ اس کےوالدین تو نہیں چاہتے تھے کہ اتنے مہنگے ریستوراں میں کھانا کھائیں لیکن نوجوان نے سوچ رکھا تھا کہ ملازمت ملنے کے بعد جب پہلی تنخواہ ملے گی تو وہ سب سے پہلے اپنے ماں باپ کوکسی مہنگے ریستوراںمیں ضرور کھانا کھلائے گا، اِسی لیے جب اُسے پہلی تنخواہ ملی تو اس نےماں باپ کے ساتھ شہر کے مہنگے ریستوراںمیں لنچ کرنے کا پروگرام بنایا۔

باپ کو رعشے کی بیماری تھی اور ضعیف ماں کو آنکھوں سے کم دیکھائی دیتا تھا۔ یہ شخص اپنی خستہ حالی اور بوڑھے ماں باپ کے ہمراہ جب ریستوراں میں داخل ہوا تو وہاں موجود امیر لوگوں نےسر سےپاؤں تک اُن تینوں کو عجیب و غریب نظروں سے ایسے دیکھا ،جیسے وہ غلطی سے وہاں آ گئے ہوں۔

کھانا کھانے کےلئے بیٹا اپنےماں باپ کے درمیان میںبیٹھ گیا۔ وہ ایک نوالہ اپنی ماں کے منہ میں ڈالتا اور دوسرا نوالہ بوڑھے باپ کے منہ میں۔ کھانے کے دوران کبھی کبھی رعشے کی وجہ سے باپ کا چہرہ ہل جاتا تو روٹی ،سالن اُس کے چہرے اور کپڑوں پر گر جاتا۔

یہی حال ماںکاتھا ، وہ جیسے ہی ماں کے چہرے کے پاس نوالہ لے جاتا تو نظر کی کمی کے باعث وہ انجانے میں اِدھر اُدھر دیکھتی تو اُس کے بھی منہ اور کپڑوں پر بھی کھانے کے داغ لگ جاتے۔

اِردگرد بیٹھے لوگ جو پہلے ہی انہیں حقیر نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، وہ اور بھی منہ چڑانے لگے کہ، "کھانا کھانے کی تمیز نہیں ہے اور اتنے مہنگے ریستوراں میں آ گئے۔۔۔!"۔

بیٹا اپنے ماں باپ کی بیماری اور مجبوری پر آنکھوں میں آنسو چھپائے، چہرے پر مسکراہٹ سجائے اِردگرد کے ماحول کو نظرانداز کرتے ہوئے، ایک عبادت سمجھتے ہوئے انہیں کھانا کھلاتا رہا۔

کھانے کے بعد وہ ماں باپ کو بڑی عزت و احترام سے واش بیسن کے پاس لے گیا۔

وہاں اپنے ہاتھوں سے اُن کے چہرے صاف کیے، کپڑوں کے داغ دھبےدھوئے اور جب وہ انہیں سہارا دیتے ہوئے باہر کی جانب جانے لگا تو پیچھے سے ہوٹل کے مینجر نے آواز دی اور کہا،

"بیٹا! تم ہم سب کےلئے ایک قیمتی چیز یہاں چھوڑے جا رہے ہو۔۔۔!"

اُس نوجوان نے حیرانی سے پلٹ کر پوچھا، "کیا چیز۔۔۔؟"

مینجر اپنی عینک اُتار کر آنسو پونچھتے ہوئے بولا۔۔۔!

"نوجوانوں کےلئے سبق اور بوڑھے ماں باپ کےلئے اُمید۔۔۔!"

اللہ پاک ہم سب کو اپنی ماں باپ کی عزت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تازہ ترین