• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

لاہور کا جلسہ کامیاب رہا یا ناکام؟

پی ڈی ایم لاہور مینار پاکستان پر ایک بڑا عوامی اجتماع کرنے میں کامیاب ہو گئی اور اس اجتماع کے سامنے جنوری کے آخر یا فروری کے شروع میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ 13؍ دسمبر کے جلسے کی تعداد کے حوالے سے دونوں جانب یعنی حکومت اور پی ڈی ایم قیادت کی طرف سے انتہائی سطح کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ 

پی ڈی ایم اس کو لاکھوں افراد کا فقید المثال پاور شو قرار دے رہی ہے جبکہ شہباز گل اس کو پانچ چھ ہزار اور شبلی فراز دس پندرہ ہزار کا ناکام شو قرار دے رہے ہیں بہرحال یہ حقیقت ہے کہ یہ تمام تر مسائل اور مشکلات کے باوجود یہ بڑا شو تھا پی ڈی ایم کی قیادت دیر سے جلسہ گاہ پہنچی سخت سردی میں لوگوں کا بڑا امتحان لیا گیا اگر جلسہ دن کی روشنی میں ہی ہو جاتا تو بہتر تھا دن کی روشنی میں تعداد کا اندازہ لگانا بھی قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ 

کورونا کی وبا کے باعث محتاط افراد نے ٹی وی پر تقاریر سنیں یہ عجیب شو تھا جس کے بارے میں اپوزیشن بھی خوش ہے اور حکومت بھی مطمئن ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فی زمانہ پراپیگنڈے کی بڑی اہمیت ہے حکومت تمام تر مشینری استعمال کر کے اسے ناکام شو قرار دینے پر تلی ہوئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی قسم کی افہام و تفہیم یا ڈائیلاگ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی یہ بھی ظاہر اور ثابت ہے کہ پی ڈی ایم حکومت سے مذاکرات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی اس کی تمام کاوش اور خواہش اسٹیبلشمنٹ کی توجہ حاصل کرنے اور ان سے ڈائیلاگ کرنے کی ہے وہ اس مفروضے پر قائم ہے کہ اگر عمران خاں کے سر سے دست شفقت اٹھا لیا جائے تو حکومت کے خاتمے میں قطعی دیر نہیں لگے گی۔ 

پی ڈی ایم حالات کو اس نہج تک لے جانا چاہتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو بالآخر بحران سنگین ہونے سے پہلے مداخلت کرنا پڑے دیکھنا یہ ہے کہ ایسا کب ہوتا ہے؟ کیا حکومت اور دوسرے ادارے لانگ مارچ شروع ہونے کا انتظار کریں گے؟ کیا اس بات کا انتظار بھی کیا جائے گا کہ اپوزیشن استعفوں کے مراحل سے کس طرح سرخرو یا نبرد آزما ہوتی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا نادیدہ قوتیں استعفوں کو اور لانگ مارچ رکوانے کے لئے اپنی قوت کا استعمال کرتی ہیں؟ یا پھر تحریک انصاف کو سیاسی حکمت عملی اور جوڑ توڑ کے لئے تنہا چھوڑ دیتی ہیں؟ اگر مداخلت ہو گی تو موجودہ ماحول میں یہ مداخلت منظر عام پر بھی آئے گی اور نوازشریف کے بیانیے کو نہ صرف تقویت ملے گی بلکہ اس کی ساتھ ہی ساتھ تصدیق بھی ہو جائے گی۔ 

مریم نواز ، مولانا فضل الرحمٰن اور بلاول بھٹو اپنی تقاریر میں کافی آگے چلے گئے ہیں وہ کسی مداخلت کو منظر عام پر لانے میں اب کوئی ہچکچاہٹ یا خوف کا مظاہرہ نہ کریں گے اپوزیشن کی اب تک یہ حکمت عملی ہے کہ دبائو کے ذریعے تمام سیاسی و غیر سیاسی طاقتوں کو کوئی راستہ نکالنے پر مجبور کر دیا جائے۔ لاہور کے جلسے میں مسلم لیگ (ن) ایک بڑی سیاسی طاقت بن کر پھر سامنے آئی ہے۔ 

دو سال سے وہ کرپشن کے پراپیگنڈے سے خود کو عاجز اور بے بس محسوس کر رہی تھی لیکن نواز شریف کی لندن روانگی اور مریم نواز کی نڈر بیباک کرشمہ ساز شخصیت نے سارے ماحول کو تبدیل کر دیا۔ مسلم لیگ (ن) متحد و منظم ہو گئی ہے مسلم لیگ آئندہ انتخابی ماحول کا منظر دیکھ رہے ہیں بے وفائی کا خیال اب محال ہو گیا ہے ان کو معلوم ہے کہ مڈ ٹرم الیکشن اگر ہو گیا تو تحریک انصاف کا مستقبل مہنگائی، بے روزگاری، خارجہ پالیسی اور سیاسی کلچر کے باعث مخدوش ہے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا گراف پھر اوپر ہے اپوزیشن کی تمام تر کوشش ہے کہ مارچ 2021ء میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات کا انعقاد نہ ہو سکے اس سے پہلے اسمبلیوں کا چل چلائو ہو جائے بدقسمتی سے یہ طے ہے کہ مارچ تک سیاسی عدم استحکام ملک کا مقدر ہے اور شاید یہ بحران مارچ کے بعد بھی جاری رہے۔ 

13؍ دسمبر کے جلسے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ اپوزیشن جو مرضی چاہے کر لے میں این آر او نہیں دوں گا۔ پی ڈی ایم کی یہ بڑی ناکامی ہے کہ وہ ابھی تک اپنے سویلین بالادستی اسٹیبلشمنٹ سے محفوظ اور پاک جمہوریت آئین اور قانون کی حکمرانی کے بیانیے کی بھرپور طریقے سے عوام تک لانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی ورنہ حکومت اس بیانیے اور این آر او میں مدغم کیسے کر سکتی تھی مریم نواز اور بلاول کو چاہئے کہ وہ ایسا مسودہ اور بیانیہ لائیں جس کے بارے میں کرپشن کیس اور سویلین بالادستی کا معاملہ علیحدہ علیحدہ ہو جائے ۔ 

عمران خان حقیقی جمہوریت اور کرپشن کیسوں کی چالاکی سے مدغم کر دیتے ہیں وہ بیانیے کی طرف آتے ہی نہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن اس معاملے میں اِن کی طرف نہیں اُن کی طرف ہی دیکھ رہی ہے کہ شاید ملکی ابتر حالات کے باعث کوئی معاملات کو درست کرنے کی طرف آ جائے وقت تیزی سے گزر رہا ہے انا اور مصلحت پسندی معیشت اور ملکی حالات کو اس نہج پر لے جائے گی جہاں سے واپسی مشکل ہو جائے گی ۔ 

لاہور کے جلسے میں عوام کا جوش و خروش جذبہ استقامت دیدنی تھا کہا جاتا ہے کہ جلسے میں کثیر تعداد مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھتی تھی ان کے جذبے اور جوش سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نواز شریف کے بیانیے سے متفق ہیں لاہور میں جلسہ گاہ سٹیج سے جس انداز میں نادیدہ عناصر اور قوتوں کا ذکر کیا گیا یہ پنجاب کے لئے انوکھا اور غیر شنا سا تجربہ تھا ورنہ پنجا ب کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے حوالے سے ہمیشہ برا بھلا ہی کہا گیا ہے اب ماحول میں تبدیلی آ رہی ہے مقررین نے احتجاج دیکھ کر زبان اور لہجہ مزید سخت کر لیا۔ 

مریم نواز پارٹی کی بہت بڑی لیڈر بن کر سامنے آئی ہیں یہ واقعہ چند ماہ کے اندر ہوا۔ 13؍ دسمبر کے جلسے سے پہلے انہوں نے لاہور کے مختلف حلقوں میں جا کر کارکنوں کو متحرک کیا وہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں پر مہر ثبت کی حیثیت رکھتا ہے۔ البتہ تقریر کے دوران عمران خاں کی وڈیو کلپس دکھانا ایک بے معنی عمل نظر آ رہا تھا سخت سردی میں لوگوں کا امتحان نہیں لینا چاہئے۔ 

مریم نواز سمیت تمام مقررین نے مذاکرات سے انکار کیا مریم نواز واقعی شعلہ بیان مقرر بن گئی بلاول بھٹو کی تقریر میں بھی روز بروز نکھار آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیلیفون کرنے والے اب مجھے ٹیلی فون نہ کریں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی کشتیاں جلا دی ہیں جلسے میں واضح طور پر کہا گیا کہ ڈائیلاگ نہیں لانگ مارچ جنوری کے آخر یا فروری کے شروع میں ہو گا۔ 

اپوزیشن کی مشکل یہ ہے کہ سردی زیادہ ہے اور انہوں نے مارچ سے پہلے اپنا کام یا ایجنڈا مکمل کرنا ہے پی ڈی ایم کا جلسے میں واضح اعلان تھا کہ سلیکٹر ان کا ساتھ چھوڑ دیں ورنہ بڑا حادثہ ہو سکتا ہے۔ عوام کے حق حکمرانی میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ مریم نواز نے بیانیے کے اظہار کا زیادہ کام نواز شریف پر چھوڑ دیا اور خود عمران خاں پر جارحانہ انداز میں گولہ باری کی اور مہنگائی کا خاص طور پر ذکر کیا۔ بلاول بھٹو نے تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا کہ کٹھ پتلی وزیراعظم کا استعفیٰ چھین لیں گے۔

تازہ ترین
تازہ ترین