یہ ہائبرڈ بندوبست ڈھائی سال پورے کرچکا جو کہ ایک حکومت کی پارلیمانی مدت کی نصف عمر ہے۔ پوچھنا برمحل ہوگا کہ تحریک انصاف کی کارکردگی کیا ہے؟یاد ہوگا جب عمران خان کو بطور وزیر ِاعظم اقتدار پر بٹھایا گیا تو میڈیا میں کیسی تشہیر کی گئی تھی؟ کہا جارہا تھا کہ ہر سیاست دان بدعنوان ہے، صرف عمران خان ہی دودھ کا دھلا ہے۔
نیز اُنہیں ایک مرتبہ اقتدار پر فائز ہونے دیں، تمام مسائل چشم زدن میں حل ہوجائیں گے۔ ہمیں بتایا گیا کہ جب عمران خان اور تحریکِ انصاف اقتدار میں آئیںگے تو ہمارے اسکول بہتر ہوجائیں گے، ہمارے اسپتالوں کی حالت سدھر جائے گی، تھانہ کچہری کا کلچر بدل جائے گا، کوئی بہتری دکھائی دی؟ چرچا تھا کہ عمران خان انسانی وسائل پر زیادہ سرمایہ کاری کریں گے۔
ملازمت کے مواقع اور گھر فراہم کریں گے۔ کیا ایسا ہوا؟ غلغلہ تھا کہ وہ اور اُن کی ٹیم وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کریں گے اور سرکاری پروٹوکول نہیں لیں گے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟
کیا کوئی ایک بھی شعبہ ایسا ہے جس میں حکومت کی کارکردگی بہتر ہو چکی ہو؟ جب پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہوئی تو پاکستانیوں کی مجموعی آمدنی 312ارب ڈالر تھی۔ تحریک ِانصاف کے دو برسوں کے دوران ہماری مجموعی آمدنی کم ہوکر 264ارب ڈالر رہ گئی ہے۔
یہ ہماری تاریخ کا منفرد واقعہ ہے جب ہماری قومی آمدنی کم ہو گئی ہو لیکن تحریکِ انصاف نے یہ معجزہ بھی کردکھایا۔ اپنے بیرون ممالک سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کاروں کو تحفظ دینے کے لئے تحریک ِ انصاف نے سودکے نرخ ہوشربا حد تک بلند کردیے۔
اس نے ہماری معاشی شرح نمو کو تباہ کردیا اور بجٹ خسارے کو ہماری تاریخ کی بلندترین سطح تک پہنچا دیا۔ مزید یہ کہ مہنگائی، خاص طور پر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں خوفناک اضافے نے محنت کش طبقے کی کمر توڑ دی۔
تحریکِ انصاف نے بلوں میں بے پناہ اضافہ کرکے شہریوں کو مجبور کردیا کہ وہ سوچیں کہ والدین کی صحت عزیز ہے یا بچوں کی تعلیم، کھانا خریدنا ہے یا کرایہ ادا کرنا ہے، بجلی کا بل ادا کرنا ہے یا بس کا کرایہ؟
اشیائے خورونوش کی قیمتوںمیں اضافہ اپنے آپ ہی نہیں ہوگیا،یہ اضافہ کیا گیا ہے۔ اقتدار میں آنے کے چند ہفتوں کے اندر تحریکِ انصاف نے ایک ملین ٹن چینی برآمدکرنے کی اجازت دے دی۔
ابھی اس برآمدی کوٹے کا ایک کلوگرام بھی استعمال نہیں ہواتھاکہ تحریک انصاف کی حکومت نے مزید ایک لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی بشرطیکہ صوبے برآمد کے لئے امدادی قیمت دے سکتے ہوں۔ اس اجلاس کے مندرجات سامنے آنے سے بھی پہلے پنجاب کے فرض شناس وزیر اعلیٰ نے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سبسڈی کی اجازت دے دی۔
اُس وقت صرف تین صنعتی گروپس کے پاس چینی کی بھاری مقدار موجود تھی۔ اور یہ ایک کھلا راز ہے کہ اُن میں سے دو کا تعلق تحریک انصاف کے چوٹی کے راہ نمائوں سے ہے۔
اُس وقت حکومت کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس چینی کے وافر ذخائر موجود ہیں لیکن گزشتہ برس (2020میں) یہ احمقانہ دعویٰ سننے میں آیا کہ پاکستانیوں نے مئی میں معمول سے پانچ گنا زیادہ چینی استعمال کی ہے۔
گویا پاکستانی چار لاکھ ٹن کی بجائے بیس لاکھ ٹن چینی استعمال کر گئے ہیں۔ تحریک انصاف نے یہ سب کچھ اپنے مہربانوں کو عوام کی جیبوں سے اربوں روپے نکالنے کا موقع فراہم کرنے کے لئے کیا تھا۔
رواں برس پاکستان کپاس کی صرف سات سے آٹھ ملین گانٹھیں پیدا کرے گا۔ کپاس ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لئے حکومت نے کیا کیا ہے؟ کیا اس نے بیجوں کی نئی اقسام متعارف کرائیں یا ایسے بیج درآمد کیے جو ہمارے ماحول کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں؟ کیا کپاس کی پیداوار، یا اس اہم فصل کے زیر کاشت رقبے میں اضافے کے لئے کام کیا؟ کیا یہ چیزیں موجودہ حکومت کی ترجیح ہیں بھی یا نہیں؟ ہم اربوں ڈالرمالیت کا چنا، دالیں اور خوردنی تیل درآمد کرتے ہیں۔کیا حکومت نے ان اجناس کی پیداوار بڑھانے کے لئے پالیسی سازی کی؟
خان صاحب کا دعویٰ تھا کہ وہ کسی صورت قرض نہیں لیں گے۔لیکن اُنہوں نے گزشتہ دو برسوں میں اس سے کہیں زیادہ قرض لے لیا جتنا مسلم لیگ ن کی حکومت نے پانچ برسوں میں لیا تھا۔ گزشتہ دو برسوں میں تحریک انصاف کی حکومت نے گزشتہ ستر برس کے دوران لئے گئے کل قرض میں چالیس فیصد کا اضافہ کردیا ہے۔
عمران خان اور اسد عمر نے سرکاری کاروباری اداروں کی حالت سدھارنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن آج ان اداروں کا خسارہ ریکارڈ بلندی کو چھو رہا ہے۔ گردشی قرضہ انتہائی تیزی سے بڑھتے ہوئے بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ گیس کا گردشی قرضہ بھی ہے کیونکہ تحریک انصاف نے ایل این جی کی درآمد کے لئے دنیا کی مہنگی ترین ڈیل کی ہے۔
یہ ڈیل چین، بھارت اور بنگلہ دیش سے کہیں مہنگی ہے۔ مزید یہ کہ ملک کو گیس کی قلت کا بھی سامنا ہے۔ اس لئے ہم زیادہ مہنگے ڈیزل اور فرنس آئل سے بجلی پیدا کررہے ہیں۔
دوسال میں تحریک انصاف نے عملی طور پر پاکستان کی ہوابازی کی صنعت، خاص طور پر پی آئی اے کو تباہ کردیا ہے۔ عمران خان کا دعویٰ تھا کہ وہ بدعنوانی کا خاتمہ کریں گے
لیکن درحقیقت چینی، آٹے، ادویات کی قیمتوںکی بات ہو یا بی آرٹی پشاور یا بلین ٹری سونامی جیسے منصوبوں کی، تحریک انصاف نے ملک میں بدعنوانی کی نئی بلندیاں متعارف کرائی ہیں۔
چنانچہ سوال یہ ہے کہ میڈیا پر تمام تر پابندیوں، انتخابات سے پہلے اور ان کے دوران کی گئی تمام تر انجینئرنگ، عدالتوں میں کھیلے گئے تمام تر کھیل، اور ہمارے سیاسی نظام کے تمام تر تنائواور ٹکرائو کے باوجود تحریک انصاف اور ہائبرڈ نظام نے کیا حاصل کرلیا؟ ان ہتھکنڈوں کی وجہ سے نہ صرف جمہوریت کو نقصان پہنچا بلکہ عوام کا اختلاف رائے کا حق بھی پامال ہوا۔
کیا یہ وہ شب گزیدہ سحر ہے جس کا انتظار تھا؟کیا یہ وہ نیا پاکستان ہے جس کا وعدہ تھا؟