پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر محترمہ مریم نواز کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کا الیکشن آرہا ہے ۔ اب ووٹ کو عزت اور ووٹ پر پہرہ دینے کی باری آزاد کشمیر کی ہے ۔ اور میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ آزاد کشمیر مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کی قیادت مریم نواز کریگی ۔ میں راجہ محمد فاروق حیدر خان کی دلیری کی معترف ہوں ، میں نواز شریف اور راجہ محمد فاروق حیدر خان سے دلیری سیکھتی ہوں جبکہ وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان کا کہنا ہے کہ جب تک آخری کشمیری زندہ ہے ۔ پاکستان کاسبز ہلالی پرچم کو کبھی سرنگوں نہیں ہونے دے گا۔ گلگت بلتستان والا انتخابی ڈرامہ آزاد کشمیر میں نہیں چلے گا ۔
آزاد کشمیر کے عوام اپنے ووٹ کی حفاظت کرینگے ۔ ہم نے گزشتہ ساڑھے چار سال ’’ٹھوک بجا‘‘ کر حکومت کی باقی عرصہ میں بھی ٹھوک بجا کر حکومت کریں گے ۔ معاون خصوصی اطلاعات پنجاب محترمہ فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ راجکماری (محترمہ مریم نواز) اس دلیرآدمی کی بیٹی ہے جو مشکل آنے پر دم دبا کر بھاگ جاتا ہے ۔ راجہ کماری ’’ دل پشوری ‘‘ کرنے کشمیر میں تن ، من، دھن سے مہم چلائے نتائج گلگت بلتستان سے مختلف نہیں ہونگے ۔ PTIاور PMLNکے مابین اس ’’میڈیا وار‘‘ سے آزاد کشمیر میں رواں سال جولائی میں ہونے والے متوقع عام انتخابات کے سلسلہ میں بڑھتے ہوئے سیاسی ٹمپریچر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ سابق وزیراعظم وصدر PTIکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے بھی محترمہ مریم نواز اور وزیراعظم آزاد کشمیر پر کڑی میں تنقید کی ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کے عام انتخابات ن لیگ کے امیدوار نواز شریف کے فوج مخالف بیانیے پر لڑیں گے جبکہ ہم PTIکے امیدوار کشمیریوں کے سفیر وزیراعظم عمران خان کے ویژن کو آگے بڑھانے کے لیے انتخابات لڑیں گے ۔ سابق وزیر چوہدری محمد سعید کی آزاد جموںو کشمیر سپریم کورٹ میں دائر نظر ثانی کی پٹیشن کو سپریم کورٹ نے منظور کرتے ہوئے ان کی نا اہلیت ختم کر دی ہے اور آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی ۔ جس سے آزاد کشمیر کے انتخابی حلقے ایل اے 3میرپور IIIمیں انتہائی دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ اگر اس انتخابی حلقے کا سرسری جائزہ لیں تو سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے 1985ء سے اب تک بشمول ضمنی انتخابات 10مرتبہ ممبر اسمبلی کا الیکشن لڑا اور 8مرتبہ کامیاب ہوئے جو ایک منفرد ریکارڈ ہے ۔
تاہم 1991ء کے عام انتخابات میں آل جموںو کشمیر مسلم کانفرنس کے امیدوار ارشد محمود غازی سے ون ٹو ون سخت مقابلے میں ارشد محمود غازی کے 11712ووٹ کے مقابلے میں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری 11461ووٹ لے پائے اور اسطرح 651ووٹ کے فرق سے شکست کھا گئے جبکہ 21جولائی 2016ء کو ہونیوالے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار چوہدری محمد سعید نے اپنی زندگی کے پہلے ہی انتخابی معرکے میں 19843ووٹ لیکر فاتح قرار پائے اور ان کے مقابلے میں PTIکشمیر کے امیدوار بیرسٹر سلطان محمود چوہدری 16594ووٹ لیکر 3249ووٹ کے فرق سے یہ انتخاب ہار گئے۔
اس حلقے کی 25سالہ انتخابی ٹریک ریکارڈ کیمطابق بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے مدمقابل جب بھی ایک سے زائد امیدوار اسمبلی انتخابی معرکے میں اترے تو شہری آبادی کا ووٹ تقسیم ہونے سے وہ باآسانی جیت جاتے ہیں ۔ جبکہ انکے والد محترم سابق وزیر چوہدری نور حسین(مرحوم) کے دور سے دیہی آبادیوں کا ووٹ بینک انھیں ورثے میں ملا ہے جو ہر صورت انھیں ملتا ہے ۔ اگر ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی سے چوہدری محمد اشرف اور سابق DGایم ڈی اے چوہدری اعجاز رضا بھی الیکشن لڑتے ہیں تو وہ بہترین لیڈ کیساتھ انتخاب جیت جاتے ہیں اور چوہدری محمد سعید اور پیپلز پارٹی میں مفاہمت ہونے پر ون ٹو ون مقابلے کی صورت میں نتائج مختلف بھی ہو سکتے ہیں ۔
آج تک کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں توقع کی جا رہی ہے کہ آزاد کشمیر کے اس انتخابی حلقے میں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور چوہدری محمد سعید کے مابین کانٹے دار مقابلہ کی توقع کی جا رہی ہے ۔ جس پر اندرون و بیرون ملک سب کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں اور کچھ لوگوں نے اس حلقے کے انتخابی نتائج پر کروڑوں روپوں کی شرطیں لگا رکھی ہیں ۔ اس سلسلہ میں ذرائع کیمطابق برطانیہ ، امریکہ اور یورپ سمیت میرپور سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور چوہدری محمد سعید کے سپورٹرز بڑی تعداد میں یہ انتخابی دنگل براہ راست دیکھنے اپنے آبائی شہر میرپور آنے کیلئے بیتاب ہیں ۔ جسکی آمد رواں سال مئی سے متوقع ہے ۔ آزاد کشمیر کی اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی اور ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کی مستقلی کے عمل میں جاری ڈیڈ لاک کے باعث ایک بڑا بحران جنم لے سکتا ہے۔
اس وقت آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ میں 2ججز اور عدالت العالیہ میں 6ججز کی خالی آسامیاں پر کی جانی مطلوب ہیں ۔ لیکن جب تک عدالت عظمیٰ اور عدالت العالیہ کے چیف جسٹس صاحبان کی مستقلی کی چیرمین کشمیر کونسل (وزیراعظم پاکستان ) منظوری نہیں دیتے تب تک آئینی سقم کے باعث اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتیاں عمل میں لانا ممکن نہیں ۔ سابق وزیرچوہدری محمد سعید کی نظر ثانی رٹ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عدالتی بحران مزید شدت اختیار کرتا نظر آرہا ہے ۔ بعض آئینی ماہرین اور حالات پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ چوہدری محمد سعید کی نا اہلیت تو اہلیت میں تبدیل ہو گئی ہے لیکن اس اہم فیصلے سے نالاں کچھ سیاسی قوتیں اور محلاتی سازشیں پس پردہ سرگرم ہونے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔
اس تناظر میں سابق ممبر اسمبلی و جموںو کشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ سردار خالد ابراہیم خان مرحوم کی آخری سانسوں تک میرٹ کی بنیاد پر عدلیہ میں تقرریوں بارے جاری جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہوئے آزاد کشمیر بھر کی وکلاء برادری اعلیٰ عدلیہ کے حق میں ایک پیج پر آگئی ہے ۔ اس سلسلہ میں آزاد کشمیر کی وکلاء برادری کی میزبانی کرنے والے ڈسٹرکٹ بار ایسو سی ایشن میرپور کے صدر مرزا قمر الزمان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر میں عدلیہ میں میرٹ/سنیارٹی کے بغیر کی گئی تقرری قبول نہیں کریں گے ۔ آئین اور قانون کیمطابق چیف جسٹس صاحبان اور جسٹس صاحبان کی تقرریاں کی جائیں ۔