ماشاء اللہ اردو پاکستان میں جم تو چکی ہے مگر تاحال ہماری سرکاری زبان نہیں بن سکی یعنی مرکزی حکومت اور اس کے تمام شعبوں میں ”نافذ“ نہیں ہے۔ مجھ سے لوگ شکایتیں کرتے رہتے ہیں اور میں انہیں یقین دلاتا رہتا ہوں کہ بس اب نافذ ہونے ہی والی ہے مگر میں خود جاننا چاہتا ہوں کہ کب نافذ ہو گی۔ مرکزی حکومت جواب دے۔ اسے معلوم ہے کہ اب زیادہ تاخیر سے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ یہ چاہتی ہے کہ ہم اسے احتجاجی جلسے کر کے دکھائیں تو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں۔ سوائے اس کے کہ پھر معاملات بہت تلخ ہو جائیں گے۔ میں کیبنٹ ڈویژن حکومت پاکستان اسلام آباد سے پُرزور (اور دست بستہ) درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں اپنے اقدامات کا کچھ حال پاکستانی عوام کو بھی بتا دیں۔ اب تک تو ہم یہی سمجھ رہے ہیں کہ اس سمت میں کوئی قدم نہیں بڑھ رہا۔ فی الحال اس موضوع پر صرف اتنا ہی۔ اگر بات بڑھتی ہے تو بڑھ بھی جائے گی۔
ایک عجب سرکاری اعلان
منگل بتاریخ 14مئی2013ء کو نواز شریف صاحب کا بیان چھپا جس کا ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ وہ فوج سے مل کر مسائل حل کریں گے۔ یہ ہماری پوری تاریخ میں پہلی بار ہے کہ وزیراعظم کی حیثیت کا ایک سویلین ایسی بات کہے۔ اب تک فوج حکومت کا ایک محکمہ سمجھی جاتی ہے اور ہماری ہر منتخب قیادت اس سے ضروری مشورے کرتی رہتی ہے۔ یہ بیان دے کر (اگر یہ درست چھپا ہے) نواز شریف نے یہ اقرار کیا ہے کہ منتخب حکومت بجائے خود کوئی آزاد ادارہ نہیں اور اگر ان کا مطلب واقعی یہی ہے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اب ہماری مرکزی حکومت کا مرتبہ اسی کے ایک شعبے یعنی فوج سے کم ہو گیا ہے۔ مگر درحقیقت فوج کوئی منتخب ادارہ نہیں ہے بلکہ وفاقی حکومت کا ایک ماتحت شعبہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کا مطلب یہ نہیں تھا لیکن ان کے اس بیان سے ایک بڑی غلط فہمی پھیل جانے کی ابتدا ہو گئی ہے،کاش وہ اس بیان کی پوری وضاحت کر سکیں۔ یہ بات ہمیشہ سے طے ہے اور سب کو معلوم بھی ہے کہ مرکزی حکومت اپنے سب معاملات میں مختلف وزارتوں اور شعبوں سے مشورہ کرتی رہتی ہے بلکہ ایک طرح تمام بڑے فیصلے ان مشوروں سے ہی ابھرتے ہیں، پھر یہ بات اس طرح کہنے کی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی۔ مجھ سے بے شمار لوگوں نے فون پر اور ذاتی طور سے کہا ہے کہ مرکزی حکومت سے یہ بات پوچھی جائے اور میاں نواز شریف سے بھی کہ کیا آئندہ سے ہماری منتخب وفاقی کابینہ اپنے معاملات اپنے ہی ماتحت ایک سرکاری شعبے کے تحت آ کر طے کیا کرے گی۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ نواز شریف کا مطلب یہ نہیں تھا اور جہاں تک مشاورت کا تعلق ہے تو وہ تو ہمیشہ سے ہوتی آ رہی ہے اور ہوتی رہنی چاہئے۔
ایک اچھی خبر
مدتوں میں ایک اچھی خبر چھپی ہے۔ یہ کہ نواز شریف نے عمران خان سے اسپتال جا کر ملاقات کی اور ”صلح ہو گئی، دوستانہ میچ ہونا چاہئے“۔ کون ہے جو اس خبر پر خوش نہ ہوا ہو گا لیکن اب ہمارے ان دونوں رہنماؤں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ اب انہیں اپنے اہم اقدامات مع تفصیلات ظاہر بھی کرنا پڑیں گے۔ اب وہ کم کم ظاہر ہوتے ہیں اور بعض کی تائیدی تشریحات ان کہی رہتی ہیں۔ فی الحال تو یہ ایک خوش خیالی ہی لگ رہی ہے۔ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا ہمارے یہ رہنما اپنی پارٹیوں کے کچھ مفادات پیوستہ قربان کرنے پر تیار ہو جائیں گے؟ مجھے ان سے کوئی زیادہ امید نہیں ہے لیکن چلئے یہ بھی دیکھتے ہیں۔ حیرت ہے کہ دونوں رہنماؤں بلکہ عموماً ہمارے بیشتر رہنماؤں کے منہ سے ہمارے معاشرے میں موجود طبقاتی کشمکش کے بارے میں کوئی بات نہیں نکلتی جبکہ ہمارے معاشرے کا اصل مسئلہ طبقاتی کشمکش ہی ہے۔
بلاول صاحب کا بیان
بلاول صاحب سے منسوب ایک بیان چھپا ہے، اس کے مطابق انہوں نے یہ کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی سب پارٹیوں کا مینڈیٹ قبول کرتی ہے۔ یہ کیسا بچگانہ بیان ہے۔ اگر آپ سب پارٹیوں کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہیں تو اپنے منصوبوں میں ویسے ہی اقدامات بھی شامل کیجئے جیسے اقدامات وہ کر رہی ہیں۔ ساتھ ہی کھل کر یہ کوشش بھی کیجئے کہ کم از کم ایک مدت مقررہ کیلئے سب ایک ہو کر ممکن ہو تو ایک ”اتحادی جھنڈے“ کے نیچے کام کریں۔
انجمن کی کچھ نئی مطبوعات زیر طبع
اس وقت انجمن ترقی اردو پاکستان جو کتابیں چھاپ رہی ہے ان کی فہرست ملاحظہ ہو۔
(1) دلّی کا دبستان شاعری (دوسرا ایڈیشن)، ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی (2) اردو کے افسانوی ادب میں نسائی لب و لہجہ، ڈاکٹر نزہت عباسی (3) تنقید اور جدید اردو تنقید (دوسرا ایڈیشن)، ڈاکٹر وزیر آغا (4) انجمن ترقیٴ اردو پاکستان کی علمی و تحریکی خدمات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ، ڈاکٹر عائشہ کفیل (5) ہندی اردو لغت (دوسرا ایڈیشن)، راجا راجیسور راؤ اصغر (6) اردو کی ادبی تاریخیں (دوسرا ایڈیشن)، ڈاکٹر گیان چند جین (7) اردو کی نثری داستانیں (تیسرا ایڈیشن)، ڈاکٹر گیان چند جین (8) جدید اردو شاعری (جلد دوم) (دوسرا ایڈیشن)، عزیز حامد مدنی (9) دریائے لطافت (تیسرا ایڈیشن)، انشاء اللہ خان انشاء (10) میرے زمانے کی دلّی (تیسرا ایڈیشن)، ملّا واحدی دہلوی (11) ”باغ و بہار“ یعنی قصہٴ چہار درویش (دوسرا ایڈیشن)، میر امن دہلوی، مرتبہ: ڈاکٹر مولوی عبدالحق (12) نسیم حجازی کی تاریخی ناول نگاری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ، ڈاکٹر ممتاز عمر (13) مرقع اقوال و امثال (دوسرا ایڈیشن)، سید یوسف بخاری (14) متنی تنقید (دوسرا ایڈیشن)، ڈاکٹر خلیق انجم (15) جدید اور مابعد جدید تنقید (مغربی اور اردو تناظر میں) (دوسرا ایڈیشن)، ڈاکٹر ناصر عباس نیر۔