خرم سہیل
پاکستان کے چند قلم کار ایسے بھی ہیں، جن کے لکھنے کی وجۂ شہرت کتاب نہیں بلکہ ریڈیو اور ٹیلی وژن کا میڈیم ہے۔ ان میں ’’حسینہ معین‘‘ سرِفہرست ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں ادبی رجحان کی ایک نئی جہت کو متعارف کروایا، وہ جہت ٹیلی وژن کے لیے ’’اصل اسکرپٹ‘‘ تخلیق کرنا ہے۔ ماضی میں ریڈیو پاکستان کی حد تک تو اسکرپٹ کا عمل دخل تھا، مگر پاکستان ٹیلی وژن شروع ہوا، تو ابتدائی طور پر جتنے ڈرامے بنائے گئے، ان کی بنیاد پاکستانی ناول نگاروں کے لکھے ہوئے ناول ہوتے تھے، جن سے کہانیاں ماخوذ کرکے، انہیں ڈرامائی تشکیل دی جاتی تھی۔
پہلی مرتبہ حسینہ معین نے کسی کہانی کو ماخوذ کیے بنا، ٹی وی کی ضرورت کے مطابق، اسکرین کے پہلوئوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اوریجنل اسکرپٹ لکھا، اس پر کامیاب ڈراما بنا، اس ڈرامے کا نام’’کرن کہانی‘‘ ہے۔ اس کے بعد سے لے کر آج تک حسینہ معین نے بے شمار کہانیاں تخلیق کیں، وہ سب اسکرپٹس کی شکل میں تخلیق ہوئیں، کبھی ان اسکرپٹ کردہ کہانیوں کے ذریعے اسٹیج پر ڈرامے کھیلے گئے، تو کبھی ان کو ریڈیو پر نشر کیا گیا، اسی طرح پھر فلم کے پردے پر بھی ان کی تخلیق کی ہوئی کہانیاں زینت بنیں۔ ان تمام میڈیمز میں لکھی گئی کہانیوں کو کتابی صورت میں بھی ضرور شائع ہونا چاہیے تاکہ ادب اور ڈرامے کے طالب علم ان سے استفادہ کرسکیں، کیونکہ یہ کہانیاں ڈرامائی کہانیوں کے ایک سنہری عہد کی عکاس ہیں۔
ڈرامے کی صنف یوں تو خالص ادب میں شمار نہیں کی جاتی، لیکن اگر وہ ڈرامے، چاہے کسی بھی شکل میں پیش کیے گئے ہوں، وہ کتابی صورت میں محفوظ کرلیے جائیں تو اہل ادب ان کو ادبی اثاثہ مان لیتے ہیں، مگر کتابی صورت نہ بھی کیے جائیں، لیکن جس طرح کے ڈرامے حسینہ معین نے لکھے، یا فلمیں لکھی ہیں، ان کی مقبولیت اور ادبی چاشنی کے بعدکون یہ کہے گا، وہ ادب کا حصہ نہیں ہیں، ہم سب کے ذہنوں پر دھوپ کنارے، تنہایاں، شہزوری، انکل عرفی، آہٹ، ان کہی و دیگرڈراموں کے نقوش ثبت ہیں، ان کے بغیر پاکستان میں ڈرامے کی تاریخ ادھوری ہے اور شاید ڈرامائی ادب کی بھی، جس کو بہرحال ہمیں ادب ہی تسلیم کرنا پڑے گا۔
انہوںنے ایسے ڈرامے لکھے، جس کو پورا پاکستان سانس روک کر دیکھتا تھا، آپ کے ڈراموں کی شہرت پڑوسی ملک ہندوستان تک بھی پہنچی، وہاں بھی آپ کے ڈرامے فنِ اداکاری کے طالب علموں کو دکھائے گئے۔ آپ نے پاکستانی فلموں کے لیے بھی لکھا۔ معروف بھارتی اداکار اور پروڈیوسر’’راج کپور‘‘ کی خواہش پر ان کی فلم’’حنا‘‘کے لیے مکالمے تحریرکیے،اس فلم کی کہانی کے بنیادی خاکے پر بھی کام کیا۔ اب یہ ڈرامانگاری اور فلم نویسی سے ایک درجہ آگے بڑھ کر ویب سیریز لکھ رہی ہیں، جو عورتوں میں بریسٹ کینسر کی آگاہی سے متعلق ہے اور مستقبل قریب میں اس کے بننے کے قوی امکانات ہیں۔
بھارتی فلم’’حنا‘‘ میں پاکستانی اداکارہ زیبابختیار نے کام کیا، جس میں ان کے مدمقابل معروف بھارتی اداکار رشی کپور تھے۔ اس فلم میں ان کوشامل کرنے کی تجویز بھی حسینہ معین کی ہی تھی۔ اس فلم کی بنیادی کہانی میں دیگر مصنفوں کے ساتھ، جن میں خواجہ احمد عباس بھی شامل تھے، حسینہ معین نے بھی اپناحصہ ڈالا اور فلم کے تمام مکالمات انہوں نے لکھے۔ 1991 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو باکس آفس پر کامیابی ملی، لیکن ہندوستانی سماج کی فضا مسلمانوں کے لیے کبھی ہموار نہیں رہی، اس متعلقہ فلم کی نمائش کے دنوں میں وہاں بابری مسجد تنازعہ بھی رونما ہوا، جس کی وجہ سے انہوں نے اس فلم سے بھی دوری اختیار کرلی۔
فلم کے کریڈیٹس میں اپنا نام شامل کرنے سے بھی منع کر دیا، کیونکہ انہیں پاکستان اور جذبہ حب الوطنی سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہ تھی۔ اس کے بعد شعوری طور پر انڈین سینما کے لیے کچھ بھی لکھنے سے گریز کیا، لیکن ان کی یہ اکلوتی لکھی ہوئی فلم بھی ہندوستانی سینما کی یادگار فلم ثابت ہوئی، وہاں سے اس فلم کو آسکر ایوارڈز کی آفیشل فلم کے لیے نامزد کیا گیا۔
حسینہ معین کی لکھی ہوئی پاکستانی فلموں میں پہلی فلم’’یہاں سے وہاں تک‘‘ تھی، جس میں وحید مراد نے مرکزی کردار نبھایا تھا۔ اس کے بعد عثمان پیرزادہ کے لیے لکھی گئی فلم’’نزدیکیاں‘‘ اور جاوید شیخ کے لیے لکھی گئی فلم’’کہیں پیار نہ ہوجائے‘‘تھی۔ ان تمام فلموں کی کہانیاں اپنی اپنی جگہ دلچسپ اور تخلیق سے بھرپور تھیں، جن کو ناظرین نے پردہ اسکرین پر پسندیدگی عطا کی۔ عہدِحاضر میں پاکستان کے مختلف نجی چینلوں سے ان کے ڈرامے نشر ہوتے رہتے ہیں، ان کا ایک پرانا ڈراما’’ان کہی‘‘ بھی بہت جلد اسٹیج ہونے جا رہا ہے۔ ان کا تخلیقی سفر آج بھی سماجی دانش اور دانائی سے پیراستہ ہے اور جاری و ساری ہے۔