٭…جوش ملیح آبادی…٭
ضعف سے آنکھوں کے نیچے تتلیاں پھرتی ہوئی
اوج خودداری سے دل پر بجلیاں گرتی ہوئی
لاش کاندھے پر خود اپنے جذبۂ تکریم کی
ملتجی چہرے پہ لہریں سی امید و بیم کی
عزت اجداد کے سر پر دما دم ٹھوکریں
رشتۂ آواز پر لفظوں کی پیہم ٹھوکریں
چہرۂ افسردہ پر ٹھنڈا پسینہ شرم کا
سست نبضیں بھیک کا لہجے کے اندر ٹھیکرا
قرض کی درخواست کی الجھی ہوئی تقریر میں
کپکپی اعصاب کی بے چین دل کی لرزشیں
اک طرف حاجت کی شدت اک طرف غیرت کا جوش
نطق پر حرف تمنا دل میں غصے کا خروش
جنبش مژگاں کے زیر سایہ ناداری کی رات
جوہر انسانیت جوڑے ہوئے آنکھوں میں ہات
سانس دہشت سے زمیں کی آسماں روکے ہوئے
مفلسی مردانہ لہجے کی عناں روکے ہوئے
لب پہ خشکی رخ پہ زردی آنکھ شرمائی ہوئی
چشم و ابرو میں خودی کی آگ کجلائی ہوئی
نفس میں شیرانہ تیور آرزو روبہ مزاج
احتیاج و احتیاج و احتیاج و احتیاج!