طاہر نواز
اردو نثری داستان کی دنیا میں مافوق الفطرت مخلوق عام ملتی ہے۔ داستان کے عجیب و غریب زمان و مکان اور محیر العقول واقعات کی رنگا رنگی اکثران ہی کرداروں کی مرہونِ منت ہے۔ یہ کردار انسانی زندگی سے تعلق نہیں رکھتے ،اُن کی روزمرہ ضروریات کی نشاندہی نہیں کرتے ،اس لیے حقیقت پسند نقاد اردو داستان کو محض خیالی، ماورائی اور اس کے مطالعے کو وقت کا ضیاع قرار دے کر داستان اور اس کے مافوق الفطرت کرداروں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔اگرچہ ان کرداروں کے بغیر بھی داستان لکھی جا سکتی ہے لیکن اردو کی کوئی داستانی کتاب اس سے صد فیصد آزاد نہیںہے۔
حقیقت پسندی کے اس دور میں ان کرداروں کی کیا اہمیت ہے ؟اس کا جواب یقینا یہ ہے کہ یہ کردار آج بھی اتنی ہی اہمیت کے حامل اور مقبول ہیں جتنے پہلے تھے۔ اگر یہ کردار مقبول نہ ہوتے توہمارے قصے کہانیوں کے علاوہ عالمی ادب میں بھی یہ مافوق الفطرت کردار تخلیق نہ ہو رہے ہوتے، جیسا کہ (ٹام اینڈ جیری، سپائیڈر مین، آئرن مین، ہیری پوٹر وغیرہ)۔ یہ کردار ہماری حقیقی زندگی سے تعلق نہ رکھتے ہوئے بھی بہت قریب تر ہیں۔ان کی اہمیت اور افادیت کے دلائل میں یہی کافی ہے کہ یہ کردار آج بھی ادب میں ملتے ہیں۔اساطیری روایات اور اعتقادات ہزاروں سال کی مدت سے جاری رہنے کے بعد انسانوں کی سرشت میں داخل ہو گئے ۔
ان داستانوں میں متعدد علوم و فنون کو کہانیوں کے پردے میں اس آسانی سے پیش کیا گیا ہے کہ عام قاری یہ محسوس بھی نہیں کر پاتا کہ یہ در اصل ا ہم مسائل اور مباحث کی افسانوی تعبیر اور تشریح ہے۔ ادیبوں نے ان مافوق الفطرت عناصر سے کسی نہ کسی پیرائے میں معنویت، اشاریت ، وسعت اور زور پیدا کیا ۔ فنی طور پر بھی مافوق الفطرت عناصر ادیبوں کو بہت سی دشواریوں سے بچا لیتے ہیں۔ خیال جو کہ کسی بھی ادب پارے کی بنیاد ہوتا ہے اس کو سمیٹنے ، اس کے تاثر کو ابھارنے ، پیرایہ اظہار کو بلیغ اور دلچسپ بنانے میں یہ عناصر بڑی مدد دیتے ہیں۔ پیچیدہ ،فلسفیانہ ، ما بعد الطبیعاتی مباحث کے ساتھ ساتھ تلخ معاشرتی حقائق کو ادبی حسن اور فکر انگیز طور پر پیش کرنے میں یہ عناصر اسلوبِ بیان اور فنی مطالبات کے حوالے سے ادیب کی مشکلات کو بہت آسان بنا دیتے ہیں۔
داستان گو در اصل ان سے علامتوں کا کام لیتے رہے ہیں۔ ان ہی مافوق الفطرت عناصر کے ذریعے انہوں نے اپنے مافی الضمیر کو فنی بلندیوں تک پہنچا کر موئثر بنایا ۔کہانی میں مافوق الفطرت عناصر کی موجودگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک خاص وقت تک کہانیوں میں وہ عناصر پائے جاتے رہے ،جنہیں معاشرت میں پسندیدگی کی سند ملتی تھی ۔ سائنس کے فروغ سے پہلے لوگ فطری قوانین سے ناواقف اور قدرتی مظاہر کی توجہیہ فکر سے نہیں بلکہ تخئیل سے کیا کرتے تھے۔پرانے زمانے کی ایسی بہت سی کہانیاں جوہم تک پہنچیں ، ان میں دنیا کے ہر خطے کی داستانیں شامل ہیں،جن میں یونانی، مصری، بابلی، چینی، ایرانی، ہندوستانی داستانیں شامل ہیں۔ان داستانوں میں یکسانیت ہمارے اجتماعی لاشعور کی شناخت ہے ۔
یہ داستانیں اگر ہماری حقیقی زندگی سے مطابقت نہیں رکھتیںاور مافوق الفطرت کرداروں اور محیر العقول واقعات کی وجہ سے بعض تو بڑی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہیں لیکن ان پر طنزاًہنسنا نہیں چاہیے اور نہ ہی تعصب کی وجہ سے انہیں نظر انداز کرنا چاہیے کیونکہ یہ اس زمانے کے لوگوں کی پر خلوص کوششوں کی تصویریں ہیں،البتہ کہ علم الانسان ، نفسیات اور فلسفے کی روشنی میں داستان کے ان مافوق الفطرت کرداروں کو تحقیق کی نئی منزل پر لایا جائے، ان کا مطالعہ کیا جائے کیونکہ اس طرح یہ کردار دلچسپ بھی معلوم ہوں گے اور پر معنی بھی۔