ارشاد احمد خاں
رپورتاژ نگاری اردو نثر کی جدید ترین صنف ہے، جس میں فنی طور پر علمی مجلسوں ، ادبی محفلوں، سیمیناروں، کانفرنسوں اور اجتماعات کی روداد پیش کی جاتی ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ صنف طویل وقت گزر جانے کے بعدبھی ایک تجربہ کا درجہ رکھتی ہے،جس میں افسانوی انداز کی جذباتیت اور غیر افسانوی طرز کی روداد نگاری کار فرما نظر آتی ہے۔ عام طور پر چشم دید واقعات کو خیال آرائی اور زبان کی چاشنی کے ساتھ بیان کرنا رپورتاژ سمجھا جاتا ہے۔ ایک لحاظ سے رپور تاژ میں جہاں واقعہ کا تفصیلی ذکر ہوتا ہے، وہیں احساسات اور تاثرات کو بھی روداد کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بیان میں ادبیت اور رومانیت کی روداد ایک جذباتی تصویر کو ابھارتی ہے، اسی خصوصیت کی وجہ سے رپورتاژ ایک غیر افسانوی صنف نثر ہونے کے با وجود افسانوی انداز کی کارفرمائی کے ذریعے اپنی انفرادیت کا لوہا منوایا۔
رپورتاژ کی پہچان اس کی اپنی ہیئت سے زیادہ اس کے اظہار میں پوشیدہ ہے۔ اس صنف میں کوئی بھی گزرا ہوا واقعہ اظہار کی تہوں تک پہنچتا اور تخلیق کا ر کے اندر چھْپے ہوئے رومانوی احساس کو جگاتا اور پھرمصّورانہ چابکدستی کے ساتھ ایسی تخلیق کو اْجاگر کرتا جو واقعات کی لپیٹ میں مرقع کاری کا درجہ رکھتی ہے۔اسےکوواقعات کی ادبی اور محرکاتی رپورٹ کہہ سکتے ہیں،جس رپورٹ میں تاثرات اور واقعات کی عکاسی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس صنف میں جذبات اور احساسات کا گزر نہیں ہوتا۔
ان خصوصیات کی وجہ سے رپورٹ کو بہر کیف رپورتاژ سے ایک علیحدہ صنف ہی تصّور کیا جائے گا۔اس میں رپورتاژ نگار عینی شواہد کے طور پر ٹھوس ، صحیح واقعات اور گزرے ہوئے حادثات کا بیان کچھ اس انداز سے کرتا ہے کہ اس کے جذبات اور احساسات کی شمولیت بھی ہوتی ہے اور اسی کارفرمائی کی وجہ سے اس میں اور نامہ نگاری میں فرق پیدا ہوجاتا ہے۔
رپورتاژ میں مخصوص خبر اور جزیات کی شمولیت کی وجہ سے اس کی تخلیقی حیثیت ایک آزاد صنف کی ہوجاتی ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بیشتر رپورتاژ نگار اپنے اسلوب میں افسانوی طرز کو شامل کرکے اس صنف کو دلکش اور دلچسپ بنادیتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ اردو کے بیشتر رپورتاژ نگار یا تو ناول نویس ہیں یا پھر افسانہ نگار ہیں۔ اسلوب غیر افسانوی نثر سے دور اور افسانوی نثر سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔
رپورتاژ کا وہ ظاہری ڈھانچہ، جسے بنیاد بنا کر اس صنف کی شناخت ہوسکتی ہے وہی ہیئت طوالت ،ایجاز و اختصار،تاثر اور ہمہ گیری سے مربوط ہے۔کشمکش اور انجام افسانوی نوعیت کا نہیں ہوتا،بلکہ ان پر حقیقت کا گہرا اثر ہونے کی وجہ سے ہیئت اور افسانویت سے استفادے کے باوجود بھی حقیقت پسند اور غیر افسانوی طر ز کی نمائندہ ہوتی ہے۔اردو میں اس کےمکمل طور پر کامیاب نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی رہی کہ افسانوی اور غیر افسانوی ہیئت سے واقف قلم کار اردو میں بہت کم ہیں، اسی لیے رپورتاژ نگاری میں افسانویت آگئی ہے۔
ساخت،معنی،اور اظہار کے ذریعے کسی فن پارے کا وجود عمل میں آتا ہے،چنانچہ رپورتاژ کی صنف بھی ایک ہیئتی اکائی رکھنے کے باوجود معنی اور اظہار کے معاملے میں افسانوی اور غیر افسانوی دونوں طر ز اسلوب سے استفادہ کیا جاتا ہے،جس سے اس کے طرز بیان میں حسن پیدا ہوجاتا ہے۔
موزوں اور مناسب الفاظ کے سہارے صحافی اصل واقعے یا حادثے کی رپو رٹنگ کرتا ہے ۔جب کہ رپورتاژ نگار کے لیے لازمی ہے کہ وہ واقعہ کے بیان اور تصویر کشی کے دوران اس قدر ڈوب جائے کہ اس کی شخصیت واقعہ سے منسلک ہوکر واقعہ کے ایک جز کا درجہ حاصل کرلے ۔ اس عمل سے گزرنے کے بعد لکھا جانے والا رپورتاژ ہی حقیقی روداد پیش کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
رپورتاژ میں افسانویت کا عمل اظہار کی حد تک روا رکھا جاتا ہے۔ اس صنف میں افسانویت کا داخل ہوجانا ایک ایسا عمل ہے ،جس کی وجہ سے مواد اور ساخت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی بلکہ اس کے اظہار میں حسن اور جمالیاتی کشش پیدا ہوجاتی ہے۔
کسی حادثہ، واقعہ یا پروگرام کا ظہور پذیر ہونا ایک ایسا عمل ہے جو حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے ۔ واقعہ کو جزئیات کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے، تاکہ اس صنف کی بنیادی ضرورت کی تکمیل ہوسکے۔ترسیل کے لیے اختیار کی جانے والی زبان نہ صرف الفاظ و معانی اور مفہوم کو ادا کرتی ہے بلکہ پیکریت ،ایمائیت یا پھر جمالیاتی احساس کے ذکر کا ذریعہ اظہار بنتی ہے، جس کی وجہ سے ذوق سلیم کی تربیت اور مفہوم کی ادائیگی کا حق ادا ہوتا ہے ۔ہر فن پارہ کے اظہار کے لیے قوّت تحریر اس کی صنفی حیثیت کے لحاظ سے مختلف ہوجاتی ہے۔
اس میں ادبیت،صحافت،رومانویت اور افسانویت کا حسین امتزاج ہوتا ہے،جس کی وجہ سے رپورتاژ کی قوّت تحریر اظہار کی تمام ترلذت اور ادبیانداز کی آئینہ دار ہوجاتی ہے۔اسی لیے اس صنف میں سوانحی انداز، خاکہ کی کیفیت ،انشائیہ کا درو بست،ڈرامے کی مکالماتی روش کے ساتھ ساتھ سفر نامے کی حقیقت، صحافت کی مبصرانہ شان اور روداد رپورٹنگ کی ہمہ گیری کا ایسا تسلسل پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس صنف میں دیگر نثری اصناف کی جھلکیاں نمایاں ہونے لگتی ہیں۔