صوبہ سندھ کے کچھ اضلاع ایسے ہیں جہاں جرائم کا تناسب نہ ہونے کے برابرہے ۔ ان میں صحرائے تھر سرفہرست ہے۔مگر ایسے علاقوں میں جہاں ڈکیتی ، قتل او رہزنی کی واردتیں نہ ہوتی ہوں وہاں ایسے جرائم جنم لے رہے ہوتے ہیں جن کا چرچا عام نہیں ہوتا ہے مگر وہ انسانوں کے لیئے خاموش قاتل بن کر ابھرتے ہیں۔ایسے جرائم وقت کے ساتھ دیگر سماجی برائیوں اور بدامنی کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔پچھلے کچھ عرصے سے صحرائے تھر میں منشیات کے استعمال میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
ان میں انتہائی خطرناک حد تک استعمال میں لائی جانے والی نشہ آور چھالیہ ہیں، جو گلی گلی اورہر جگہ آزادانہ طور پر فروخت کی جا رہی ہیں۔جنگ سروے کے دوران پتہ چلا ہے کہ اس چھالیہ کے کاروبار نے ایک منظم صورت اختیار کر لی ہے اورمخصوص مافیااس دھندے سے راتوں رات کروڑ پتی بنتی جارہی ہے جب کہ دوسری جانب ہزاروں نوجوان اس کے عادی بن چکے ہیں۔
2100 یا جی این ڈی کےناموں سے بکنے والی نشہ آور گٹکہ چھالیہ زہر قاتلثابت ہورہی ہے۔ اس کو استعمال کرنے والے مستقل عادی بن جاتے ہیں ۔پانچ روپےقیمت پر بکنے والی یہ چھالیہ مانگ بڑھنے کے بعد بیس روپے تک میںفروخت ہو رہی ہے جو تھر کے ہر دیہات تک پہنچ چکی ہے ۔تھر کے پانچ شہروں سمیت کل 23سو دیہات میں اس کی ترسیل پانی کی طرح کی جا رہی ہے بلکہ کچھ ایسے بھی دیہات ہیں جہاں پانی تو دور سے لایا جاتا ہے مگر یہ نشہ باآسانی دستیاب ہے۔
ضلع میں اب تک اس کا کوئی کارخانہ موجود نہیں ہے مگر قریبی اضلاع اور بڑے شہروں سے اس کی ترسیل تھر کے علاقوں میں ہوتی ہے۔سروے کے دوران لوگوں نے بتایاکہ میرپوخاص ،عمرکوٹ ،بدین اور کراچی سے اس کی ترسیل ایک نیٹ ورک کے ذریعے عمل میں لائی جا رہی ہے۔باوثوق ذرائع کے مطابق روزانہ بھاری مقدار میں فروخت ہونے والی اس چھالیہ کی فروخت میں کئی سفید پوش افراد نے بھی اپنے ہاتھ کالے کئے ہوئے ہیں ۔سیاسی آشیرواد کی چھتری تلے اس کاروبار میں ملوث لوگ اوپرسے نیچے تک حصہ پتی پہنچا کر اس کالے دھندے کو سفید کر کے دیدہ دلیرے سے کام چلائے جا رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بعض چیک پوسٹس اور تھانوں پر من پسند عملہ تعینات کرواکر اس نیٹ ورک کو چلایا جا رہا ہے۔تھر میں بڑی مقدار میں نشہ آور چھالیہ لانے کے لیےکل تین داخلی راستوں کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ عمرکوٹ ،نوکوٹ گیٹ اوربدین کی طرف سے ونگو موڑ گیٹ جہاں سے منشیات سے بھرے ٹرک خاص اوقات میں پولیس چوکیاں پار کر کے گوداموں میں اتارے جاتے ہیں ۔
معلومات کے مطابق یہ گودام اثر رسوخ رکھنے والے افراد کے ہی ہیں کیوںکہ لاکھوں ، کروڑوں روپے مالیت کا یہ کاروبار ،کسی عام آدمی کے بس کی بات ہر گز نہیں ہو سکتی ہے جو بعض دفعہ نقصان کا سبب بنتاہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس ضلع میں جرائم کی شرح صفر ہو، وہاں قتل و غارت گری کے واقعات ، ڈاکا اور چوری کی وارداتیں نہ ہوں، وہاںحد کی پولیس کس کام میں مصروف ہے ؟ اس گھنائونے کاروبار کو روکنا ضلعی انتظامیہ کے لیے ایک چیلنج ہے ،مگر پولیس کےباوثوق ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ کئی محکمہ کے افراد یعنی کالی بھیڑوں نے بھی اس کاروبار میں اپنے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔جس کہ وجہ سے یہ کاروبار دن بہ دن ترقی کررہا ہے ۔
جس طرح اوپر ذکر کیا گیا کہ تھر وسیع تر رقبے پر مشتمل اور16لاکھ آبادی پر مشتمل ضلع ہے ۔وہاں کے سیکڑوں دیہات اوردس کے قریب چھوٹے بڑے شہروں میں دکانوں اور کیبنوں پر نشہ آور چھالیہ کی فروخت میں ملوث افراد کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہوگی۔ماہانہ کروڑوں کی مالیت کا یہ کاروبارآزادانہ طور سے کیا جا رہا ہے،مگر ضلع کی پولیس اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے دوسرے تیسرے روز ایک سے دو منشیات فروشوں پر مقدمات درج کر کے خانہ پری کرتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دھندے میں ملوث افراد میں سے ماہانہ ایک سے د وفیصد کو ہی بہ مشکل پکڑ ا جاتا ہے۔
منشیات فروشوں کی پکڑ دھکڑ کے متعلق کچھ اس طرح بھی انکشافات سامنے آئے ہیں کہ اس وقت علاقے میں تین سے چار گروپ یہ دھندا کر رہے ہیں جنہیں بااثر افراد کی پشت پناہی حاصل ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب چھوٹے منشیات فروش ان سے مال نہیں خریدتے ہیں تو وہ پولیس کوان کی نشاندہی کر کے پکڑاتے رہتے ہیں ،یوں ان کے کسٹمر بڑھنے کے ساتھ پولیس کا ریکارڈ بھی بہتر ہوتا رہتا ہے۔
محکمہ پولیس کا شعبہ سی آئی اے،جس کےسر انسداد منشیات ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،مگر اس شعبہ کے پاس اس سماجی برائی کو روکنے کی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آئی ہے۔پولیس اور سی آئی اے کی چشم پوشی کی وجہ سے یہ ہلاکت خیز زہر ہر گائوں میںپھیل گیاہے ۔اس کی وجہ سے نئی نسل تباہ اور منہ کے کینسر جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہورہی ہے۔اسے روکنے کی اول ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی ہے۔اس برائی کو ختم کرنے میں سماجی اداروںو معاشرہ کے متحرک افراد کو بھی اس کی سنگینی پر غور کرتے ہوئے نوجوان نسل کو تباہی سے بچانے کے لیے عملی کردار ادا کریں ۔
اس ضمن جنگ کی جانب رابطہ کرنے پر سماجی رہنما ڈاکٹر شنکرلال وانکوانی نے بتایا کہ نشہ آور چھالیہ کے استعمال سے منہ کی جلد شدید متاثر ہوتی ہے جو کینسر سمیت منہ کی مہلک بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔اس وقت بڑی تعداد میں نوجوانوں سمیت بڑی عمر کے افراد بھی استعمال کر رہے ہیں جو کہ پوری قوم کی تباہی کا باعث ہے ۔اس کی روک تھام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک بڑے ڈیلرز کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی ۔پولیس اس گھنائونے کاروبار کو ریاستی طاقت کے ذریعے روکے۔
اس سلسلے میںجنگ کی جانب سے رابطہ کرنے پر ایس ایس پی تھرپارکر حسن سردار نیازی نے بتایا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ نشہ آور چھالیہ فروخت کرنے والوں کا خاتمہ کریں۔ اس مقصد کے لیے روزانہ کی بنیاد پر مختلف تھانوں کی حدود میں کارروائیاں عمل میں لائی جاتی ہیں ۔منشیات کی ترسیل روکنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تھرپارکروسیع و عریض علاقہ ہے، جس میںہر جگہ پہنچنا مشکل ضرور ہے مگر کوششیں جاری ہیں۔انہوں نے مزیدکہا کہ نسل نو کو اس برائی سے بچانے کے لیے ’’اویئرنیس مہم ‘‘چلانے کی ضرورت ہے۔
سول سوسائٹی کی متفقہ رائے ہے کہ نشہ آور چھالیہ کی ترسیل کو روکنے کے لیےبڑے ڈیلرز کے خلاف بلا تفریق کاروائی کی جائے اور داخلی راستوں پرقائم چیک پوسٹس پر بہتر ساکھ رکھنے والے پولیس افسران و اہلکاروں کو میرٹ پر مقرر کیا جائے۔ تاکہ اس کی ترسیل کو ناکام بنا کر شہروں اور دیہاتوں کو اس لعنت سے پاک کرنے کے ساتھ نوجوان نسل کو تباہی سے بچا یا جا سکے۔