سعادت حسن منٹو صرف شاندار افسانہ نگارہی نہیں بلکہ عمدہ خاکہ نگار، مترجم، مدیر اور فلم نویس بھی تھے۔ ایک طرف ان کی لکھی ہوئی کہانیوں پر فلمیں بنیں، وہیں ان کی ذات اور زندگی پر بھی تحقیق ہوئی، ان کے بارے میںمتعدد مضامین، مقالے اور فلمی کہانیاںبھی لکھی گئیں۔ برصغیر پاک و ہند میں معدودے چند ایسے ادیب ہیں، جن کو اتنی شہرت ملی، ان میں سے ایک سعادت حسن منٹو تھے، جن کی شہرت کا عرصہ کئی دہائیوں پر مشتمل ہے۔ وہ جب تک حیات تھے، مقبولیت کے ساتھ ساتھ مخالفت کو برداشت کیا اور مقدمے بازی بھی سہنا پڑی۔
سعادت حسن منٹو کے حوالے سے تکلیف دہ بات یہ ہے، اُس دکھ کو ابھی تک محسوس نہیں کیا گیا، جس کی اذیت میں قلم ڈبو کر منٹو نے جان نکال لینے والے افسانے لکھے۔ان کی زندگی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں، تو فلم ہی ایک ایسی صنعت تھی، جس نے اس پرشہرت کے دروازے کھولے، روزی روٹی کمانے کی راہیں آسان کیں۔ بھارت کی معروف فلم ساز’’نندیتا داس‘‘ نے 2018 میں سعادت حسن منٹو کی زندگی پر فیچر فلم’’منٹو‘‘ بنائی۔پاکستان میں بننے والی فلم’’منٹو‘‘ سے فلم تکنیکی اعتبار سے بہت کمزور فلم تھی۔1945 میں معروف ہدایت کار’’جے کے نندہ‘‘ نے منٹو کے افسانے ’’جھمکے‘‘ پر پہلی فلم بنائی اور 1966 میں ہدایت کار اقبال شہزاد نے دوبارہ’’بدنام‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ فلمایا۔ 1975 میں ہدایت کار حسن طارق نے فلم’’اک گناہ اور سہی‘‘ بنائی، جس کا مرکزی خیال منٹو کے افسانے’’ممی‘‘ سے لیا گیا تھا۔ اس طرح کی مزیدکئی مثالیں ہیں۔
1957 میں منٹو کے افسانے ’’لائسنس‘‘سے متاثر ہوکر فلم’’یکے والی‘‘ بنائی گئی، جس میں سدھیر اور مسرت نذیر نے مرکزی کردار نبھائے تھے، کہا جاتا ہے کہ اس فلم کی کمائی سے پروڈیوسر نے فلمی اسٹوڈیو بنالیا۔ اس فلم کے ہدایت کار ایم جے رانا تھے۔ 1972 میں اسی افسانے سے متاثرہ پنجابی زبان میں بھی ایک فلم بنائی گئی۔ 1961 میں ہدایت کار خلیل قیصر نے منٹو کی انقلابی کہانی کو بنیاد بناکر فلم’’عجب خان‘‘بنائی۔1971 میں یہ فلم دوبارہ بنائی گئی۔ منٹو پر 1987 میں برطانوی فلم میکر’’کین میکلن‘‘ نے سب سے پہلے منٹو کی کہانی ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کو انگلینڈ میں فلمی شکل دے کر پردہ اسکرین پر پیش کیا۔ اس فلم کا نام’’پارٹیشن‘‘ تھا۔ 1994 میں نیشنل فلم ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے کلکتہ میں بنگالی زبان میں فلم’’انتارین‘‘ بنائی، جس کی کہانی منٹو کے افسانے’’بادشاہت کا خاتمہ‘‘ سے متاثر تھی، جبکہ منٹو کے ہی تین دیگر افسانوں ہتک، ممد بھائی اور بابو گوپی ناتھ کو بھی اس نے اپنی اس فلم کے اسکرپٹ میں شامل کیا تھا۔ 2002 میں ہدایت کارہ فریدہ مہتا نے منٹو کے افسانے کالی شلوار پر فلم’’دی بلیک گارمنٹس‘‘ بنائی۔
1995 میں بھارت میں ہی ہدایت کار شکتی میرابھا نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کو فلمایا۔ 2005 میں ہدایت کارہ عافیہ نتھائیل نے اسی افسانے پر فلم بنائی۔ پاکستان ٹیلی وژن اور کئی نجی چینلوں نے بھی منٹو کے افسانوں پر شارٹ فلمیں بنائی ہیں اور جامعات کے طلبا بھی اس تناظر میں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔سعادت حسن منٹو نے اپنی فلمی کیرئیر میں زیادہ تر فلمیں بھارت کے قیام کے دوران لکھیں، جو ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ ہے اور انہیں عوامی پہچان یہی سے ملنا شروع ہوئی۔ ان فلموں کی بالترتیب فہرست کچھ یوں ہے۔ کسان کنیا، اپنی نگریا، نوکر، چل چل رے جوان، بیگم ،شکاری، آٹھ دن، گھمنڈ، مرزا غالب ہیں جبکہ پاکستان میں انہوں نے کل تین فلمیں لکھیں، جن کے نام بیلی، دوسری کوٹھی اور کٹاری شامل ہیں۔
ان کی لکھی ہوئی فلم’’مرزا غالب‘‘کو بے پناہ شہرت ملی اور اس فلم کی وجہ سے ہندوستانی فلمی صنعت کی تاریخ میں سعادت حسن منٹو کا نام بطور فلم نویس زندہ رہے گا، اس فلم کی ایک اور خاص بات، اس کے مکالمے ہیں،ان مکالمات کو ،منٹو کے ہم عصر اور معروف بھارتی ادیب راجندرسنگھ بیدی نے لکھا تھا۔ ۔ہفت روزہ جریدے’’مصور‘‘ کی ادارت سنبھالنے کے بعد منٹو کو فلمی دنیا میں قدم رکھنا پڑاتھا۔سنجیدہ ادبی حلقوں میں لکھاریوں کو فلم کے شعبے میں کام کرنے کی بدولت اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ ادارت کرنے کے ساتھ ساتھ منٹو نے فلم کے موضوع پر کئی عمدہ مضامین لکھے، فلموں پر تبصرے بھی کیے۔ شعر و غزل میں دلچسپی نہ ہونے کے باوجود مرزا غالب جیسی فلم لکھی، جو انہیں ذاتی طور پر بھی پسند تھی،کیونکہ منٹو درحقیقت غالب کے بہت بڑے مداح تھے۔فلم’’بَن کی سندری‘‘ وہ پہلی فلم تھی، جس کے مکالمے منٹو نے لکھے، جبکہ وہ کئی فلم کمپنیوں کا حصہ بھی رہے، زیادہ ترنے انہیں ایک منشی سے زیادہ حیثیت نہیں دی، اسی وجہ سے اکثر فلمیں انہوں نے لکھیں، مگر ان کا نام فلم کے کریڈیٹس میں شامل نہیں تھا۔
اس کی نمایاں مثال برصغیر کی پہلی رنگین فلم’’کسان کنیا‘‘ ہے، جس کا اسکرپٹ، منظر نامہ اور مکالمے منٹو نے لکھے، لیکن اس پر منٹو کا نام نہیں ہے۔وہ پہلی فلم جس پر بطور اسکرپٹ رائٹر منٹو کا نام شایع ہوا، وہ’’آٹھ دن‘‘ تھی اور یہی وہ واحد فلم ہے، جس میں منٹو نے ایک پاگل فوجی افسر کا مختصر کردار بھی نبھایا۔ وکٹر ہیوگو کے معروف ناول’’دی مزابیل‘‘ کی تلخیص بھی منٹونے کی، جس کی بنیاد پر ہدایات کار سہراب مودی نے فلم’’کندن‘‘ بنائی۔ ہجرت کے بعد پاکستان میں منٹو کی لکھی ہوئی پہلی فلم’’بیلی‘‘ باکس آفس پر ناکام رہی، دوسری فلم’’آغوش‘‘ تھی، اس کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں جو تیسری اور آخری فلم لکھی، اس کا نام’’دوسری کوٹھی‘‘ تھا۔ انہوں نے اس کے بعد پھر کبھی کسی فلم کی کہانی نہ لکھی، کیونکہ وہ دونوں ممالک کی فلمی صنعت میں کہانیوں سے غیر ادبی رویہ روا رکھنے پرخفا اور دلبرداشتہ تھے۔