نصیر ترابی 10جنوری2021کو دنیا سے رخصت ہوگئے ان کے بارے میں لکھنے کو بہت کچھ ہے ہم نے جمال پانی پتی کے ایک مضمون سے چند اقتباسات منتخب کیےہیں، یہ مضمون نصیر ترابی کاپہلے شعری مجموعہ’’عکس فریادی‘‘ کے منظرِعام پر آنے کےبعد سپردِ قلم کیا گیا تھا۔
’’عکس فریادی‘‘ نصیرترابی کا پہلا شعری مجموعہ ہے اور اپنے پہلے شعری مجموعے پرکسی نقاد سے فلیپ یا پیش لفظ لکھوانا میرے نزدیک ہر جینوئن شاعر کا ایک ایسا جائز اور فطری حق ہے جس پر کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ لیکن ادبی اصولوں اور تہذیبی قدروں کی بے آبروئی کے اس دور میں نصیر کا اپنے اس جائز اور فطری حق کو استعمال نہ کرنا بھی صاحبان نقد ونظر کے لیے ایک ایسا لمحۂ فکریہ فراہم کرتا ہے جو اُس کی شخصیت اور فن کی صحیح تفہیم کے حوالے سے اپنے اندر چند در چند معنی خیز مضمرات کاحامل ہے۔ اور پھر اپنے مجموعۂ کلام کو فلیپ اور پیش لفظ جیسی سفارشی چٹھیوں کے بغیر منظرعام پر لانے سے قبل بھی نصیر کا اپنے آپ کو ادبی رسائل و جرائد سے، مشاعروں اور مشاعرہ بازوں سے، آرٹس کونسلوں، نیشنل سینٹروں اور پنج ستارہ ہوٹلوں میں منعقد ہونے والی نام نہاد ادبی تقریبات سے دُور رکھنا بھی دراصل اُس کے مزاج کی اسی خصوصیت کو ظاہر کرتا ہے جو ناموس شعر کی قیمت پر کوچۂ شہرت کی دریوزہ گری کو اپنے لیے کبھی روا نہیں رکھ سکتی۔
نصیر کے مزاج کی اس خصوصیت کو نظر میں رکھا جائے تویہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عزیز حامد مدنی کے بعد ہمارے ہاں غالباً نصیرترابی ہی وہ واحد شاعر ہے جس نے بہت اچھی پی آر کا آدمی ہونے کے باوجود شہرت کے لیے استعمال ہونے والے تمام مروّجہ ذرائع اورطریقوں سے دُور رہ کر نہ صرف یہ کہ خود کو ارزاں نہیں ہونے دیا بلکہ اپنی غزل کی تہذیبی سطح اور معیار کو بھی گرنے سے بچائے رکھا۔
اپنی بتیس سالہ تخلیقی زندگی کا حاصل صرف ایک شعری مجموعے کی صورت میں پیش کرنا ویسے تو نصیر کی کم گوئی اورکم سخنی ہی پر محمول کیا جائے گا لیکن اس کم سخنی اور کم گوئی کا صلہ اسے ایک ایسےخوب صورت اور سراپا انتخاب مجموعے کی صورت میں ملا ہے جو اپنی غزلوں کے رنگ و آہنگ، آن بان اور سج دھج کے اعتبار سے جدید اردو غزل میں اپنی مثال آپ ہے۔ اور چاہے کوئی اس بات سے اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن میرا خیال یہی ہے کہ ناصرکاظمی اور مدنی کے بعد ایسی دل کھینچ، تازہ کار اور سراپا انتخاب غزل گنتی کے چند ایک غزل گو شعرا کو چھوڑ کر دوسروں کے ہاں مشکل ہی سے ملے گی۔
مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں نصیر کو گنتی کے ان چند ایک شعرا کے سوا باقی تمام غزل گو شعرا سے بڑھائے دے رہا ہوں۔ یقیناًان میں بعض شاعر کسی نہ کسی اعتبار سے نصیر سے اچھے بھی ہیں مگر غزل کا جو مخصوص تہذیبی مزاج اور لب و لہجے کی جو تہذیبی سطح ہمیں نصیر کے ہاں ملتی ہے وہ دوسروں کے ہاں کم یاب ہے۔ اس لیے کہ دوسروں کے ہاں اچھی سے اچھی غزل میں بھی بعض اوقات ایسے شعر آ جاتے ہیں جو اپنے موضوع کے اعتبار سے خواہ کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں مگر غزلیہ شاعری کے آہنگ اور غزل کے اس تہذیبی مزاج سے لگا نہیں کھاتے جس کی تربیت ہمیں اردو غزل کی تین سو سالہ روایات کے اندر رہ کر حاصل ہوئی ہے۔
نصیر کی خوش قسمتی سے اسے یہ تربیت اپنے ہی گھر کے علمی اور ادبی ماحول میں میسر آگئی۔ اس کے والد گرامی علامہ رشید ترابی ایک جید عالم دین اور بے مثال خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ ’’شاخ مرجاں‘‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ کتابی صورت میں شائع شدہ موجود ہے۔ ان کے پاس اپنے وقت کے تمام بڑے شعرا کی آمد و رفت تھی، اور گھر کے اندر اردو اورفارسی کے نامور اساتذہ اور ان کے اشعار پر، الفاظ کے در و بست اور شعر کے حسن و قبح پر، شعری لطافتوں اور نزاکتوں پر گفتگو رہتی تھی۔ نصیر کی ابتدائی شعری تربیت اپنے گھر کے اسی علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی اور اسی ماحول میں اسے غزلیہ شاعری کی روایت اور غزل کے تہذیبی اور لسانی مزاج سے شناسائی کے مواقع میسر آئے۔ بعد میں یہ شناسائی بڑھتے بڑھتے گہری وابستگی میں تبدیل ہو کر اُس کے اپنے مزاج کا حصہ بن گئی۔
پھر یہ نکتہ بھی اُس نے اپنے والد گرامی ہی سے سیکھا کہ اچھی غزل کہنے کے لیے فارسی شاعری کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ چناں چہ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی شاعری کی روایت کو بھی اُس نے اپنے اندر جذب کرکے اس سے اپنے شعری مزاج اور ذوق کی تشکیل و تعمیر کا کام لیا۔ غرض یہ کہ نصیر کے ادبی اور شعری مزاج کی نشوونما ایک ایسے علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی جس کا تعلق غزل کے تہذیبی اور لسانی پس منظر سے ہنوز منقطع نہیں ہوا تھا۔ اس ماحول کی تربیت نے اسے غزل کی تہذیب کا اداشناس بنا کر یہ بات اس کے تخلیقی وجدان میں اُتار دی کہ غزل محض ایک صنف سخن ہی نہیں، ہمارے تہذیبی مزاج کی ترجمان بھی ہے بلکہ رشید احمد صدیقی کے الفاظ مستعار لے کر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہماری تہذیب غزل میں اور غزل ہماری تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہے۔
غزل کی روایت، غزل کی تہذیب اور غزل کے تہذیبی مزاج کی باتیں ممکن ہے آج ہم میں سے بہت سوں کی سمجھ میں پوری طرح نہ آئیں۔ اس لیے کہ تہذیبی شکست و ریخت کے اس زمانے میں غزل کا رشتہ اس تہذیب اور تہذیبی اقدار کے اس نظام سے بس برائے نام ہی باقی رہ گیا ہے جس نے غزل کو پیدا کیا اور پروان چڑھایا تھا۔ یہ رشتہ ایک ایسے زمانے میں برقرار رہ بھی کہاں سکتا تھا جب خود وہ تہذیب ہی دم توڑ چکی ہو یا دم توڑ رہی ہو جس نے غزل کو پیدا کیا تھا۔ وہ تو یہ کہیے کہ غزل ہے ہی کچھ ایسی کٹر اور سخت جان صنف سخن کہ حالی اور عظمت اللّٰہ خاں کے وقت سے لےکر آج تک ہر طرح کے سرد و گرم کو جھیلتی ہوئی اور ہر زمانے کے بدلتے ہوئے انداز و اطوار کو اپنے اندر سموتی ہوئی، اپنے آپ کو اور اپنی مخصوص انفرادیت کو برقرار رکھتی چلی آرہی ہے۔۔۔۔۔۔بعض شعرا اپنی غزل میں نیا پن پیدا کرنے کے لیے روایت سے انحراف کی جو راہیں اختیارکرتے ہیں ان کی حدیں بھی بالعموم بھونڈے پن اور بوالعجبی سے جا ملتی ہیں۔ اور بعض کے ہاں واقعیت نگاری پر اصرار سے غزل کے رمزی اور ایمائی تقاضوں کی نفی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح بعض شعرا غزل کی تہذیبی سطح اور معیار کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی غزل میں ایسے ہلکے پھلکے اور رومانیت زدہ الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ غزل میں فلمی گیت کا سا انداز پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسی غزلوں کو پڑھ کر تربیت یافتہ ذہن کے قاری کو دھکا سا لگتا ہے۔ نصیرترابی کی غزل کے سلسلے میں اس طرح کی چیزوں کا حوالہ بھی میرے نزدیک ایک ناخوش گوار بات ہے۔
ایک ایسے زمانے میں جب ہمارے شعرا بالعموم فارسی زبان اور شعر و ادب کی روایت سے بڑی حد تک دُور ہوچکے ہیں، نصیر کا فارسی میں شعر کہنا، رومی، حافظ، عرفی، نظیری اور غالب و اقبال جیسے فارسی شعرا کے اشعار اپنی کتاب کے فلیپ پر درج کرنا اور اپنے مجموعے کا نام بھی اپنے ہی فارسی کے ایک شعر سے نکالنا، یہ سب باتیں فارسی زبان اور شعر و ادب کی روایت سے اُس کے گہرے شغف کو ظاہر کرتی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی اگر ہم اس بات کو بھی نظر میں رکھیں کہ اس کے مجموعے میں اپنی طبع زاد زمینوں اور مدنی اور فیض جیسے زمانۂ حال کے شعرا کی زمینوں میں کہی گئی چند غزلوں کے علاوہ اچھی خاصی تعداد ایسی غزلوں کی بھی ہے جو میر، سودا اور مومن سے لے کر شاد اور یگانہ تک اردو غزل کے مختلف اساتذۂ سخن کی زمینوں میں کہی گئی ہیں، تو اس سے بھی ہمیں اس بات کا پتا چلتا ہے کہ نصیر نے فارسی غزل کے ساتھ ساتھ اردو غزل کی کلاسیکی روایت سے بھی اپنا رشتہ برقرار رکھتے ہوئے، دونوں کے بہترین عناصر سے اکتساب فیض کرکے اپنی غزل کو پرمایہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
اردو غزل کی تین سو سالہ روایت کے ساتھ اگر فارسی غزل کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ کوئی سات آٹھ سو سال کی روایت بن جاتی ہے۔ نصیر نے اس پوری روایت کو اپنی شخصیت میں جذب کرکے اس سے اپنی غزل کے آب و رنگ کو نکھارنے اور سنوارنے کا کام لیا ہے۔ اور یقیناًیہ اس کی کوئی مجبوری نہیں بلکہ اس کا انتخاب (choice) ہے۔ اس کا رویہ اس باب میں تقلیدی اور روایتی نہیں بلکہ خلاقانہ اور جدید ہے۔ اور یہ ایک ایسا رویہ ہے جس کے ذریعے اس نے اپنی آواز کو پالا اور اپنی انفرادیت کے خدوخال کو اُجالا ہے۔
فارسی زبان و ادب سے نصیر کے گہرے شغف کی بہ دولت اس کے ہاں اردو غزل میں فارسیت کا ایک خوش گوار اور خوب صورت رنگ ایسا بھی شامل ہوگیا ہے جو کہیں اس کی ترکیب سازی اور پیکر تراشی میں اپنی جھلک دکھاتا ہے اور کہیں خوب صورت تشبیہوں اور استعاروں کی صورت میں ہمارے دامن دل کو کھینچتا ہے۔ اس کے پیرایۂ اظہار کی تازگی اور انداز بیاں کی شگفتگی بھی بہت کچھ اسی چیز کی مرہون منت ہے جس کی بہ دولت وہ اپنے جذبات و محسوسات کو خوش رنگ اور تازہ کار لفظی پیکروں اور تشبیہوں کا پیرہن عطا کرکے انھیں کچھ اس سج دھج کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ ذرا دیکھئے تو سہی، اس نے اپنے تخیل کی سحرطرازی اور نادرہ کاری سے تازہ تر لفظوں،خوب صورت تشبیہوں اور اچھوتے لفظی پیکروں کی کیسی جگمگ کرتی کہکشاں اپنی غزل میں سجائی ہے:
کسی یاد کی حنا کو گل دستِ شب بنانا
کسی آنکھ کے دیے کو سرِطاق شام رکھنا
……٭٭……٭٭……
دیکھ یہ شب گزیدہ لو، دیکھ مرا پریدہ رنگ
اے مری شمع ہم فراق، سوچ یہ کس کا ہے زیاں
شب اگر ہے تو کسی توشۂ آزار کی شب
رنگ اگر ہے تو کسی خوابِ پس انداز کا رنگ
……٭٭……٭٭……
سمومِ تنگ دلی نے یہ حوصلہ نہ رکھا
کہ شاخ دل کو رکھوں آشیاں کے قصوں میں
……٭٭……٭٭……
ہم رنگیِ موسم کے طلب گار نہ ہونا
سایہ بھی تو قامت کے برابر نہیں ملتا
……٭٭……٭٭……
یہ موسم ِقدح کی گل اندازیاں درست
اس لالہ پیرہن کی طرح داریاں کہو
……٭٭……٭٭……
وہ بہار تھی کہ تُو تھا، یہ غبار ہے کہ میں ہوں
تُو سوادِ خوش چراغی، میں دیارِ بے دیاراں
……٭٭……٭٭……
شب ستارہ کشا ہی مقدّروں میں نہ تھی
چراغ طاق پہ تھے روشنی گھروں میں نہ تھی
جو اِک اشارۂ مژگاں میں تھی سخن رنگی
گل و سمن کے دل آویز دفتروں میں نہ تھی
……٭٭……٭٭……
اردو کے ساتھ فارسی کے رنگوں کی ایسی خوب صورت اور خوش آہنگ تال میل جس نے نصیر کی غزل کو حسن و زیبائی کا ایک نگارخانہ بنا کر رکھ دیا، غالب کے بعد اور کہاں دیکھنے میں آئی ہے۔ چلئے حسرت اور فیض کے نام تو آپ لے سکتے ہیں مگر کیا ان دونوں کے بعد کوئی اور نام بھی آپ کے ذہن میں آتا ہے؟
اردو میں فارسی کی ہلکی سی آمیزش سے اس کے ہاں خوب صورت تشبیہوں، نادر ترکیبوں اور لفظی پیکروں کے ساتھ غزل کا جو طرز سخن اور پیرایۂ اظہار ملتاہے، اس کے حوالے سے اس کا سلسلہ فیض اور حسرت سے ہوتا ہوا غالب تک پہنچتا ہے۔ مگر اپنے مزاج اور غزل کی داخلی کیفیت کے اعتبار سے وہ غالب کی بجائے میر کے اس قبیلے کا فرد ہے جس کے لیے نظیری نے کہا تھا کہ کسے کہ کشتہ نشد از قبیلۂ مانیست۔ یوں اس کی غزل پر دُور و نزدیک سے پرچھائیاں تو سودا، مومن، شاد، یگانہ، فیض اور مدنی جیسے شعرا کی بھی پڑتی ہیں مگر میر کا اثر اوروں کی نسبت نمایاں ہے۔ شاید اس لیے کہ یہ اثر اس کے مزاج سے ایک گونہ مناسبت بھی رکھتا ہے۔
۔۔۔۔ نصیر ابھی اپنے پس انداز خوابوں کے رنگ اپنی غزل کے آئینے میں منعکس کر ہی رہا تھا کہ دفعتاً رنگ پھیکے پڑنے لگے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسی آگ برسی کی نئی زندگی کے سارے خواب جل کر راکھ ہوگئے۔ وقت کا سیلاب امیدوں اور آرزوؤں کے سارے گھروندوں کو بہا لے گیا۔ منزلیں راہوں کے غبار میں گم ہوگئیں۔ جان سے عزیز رشتے کچے دھاگوں کی طرح ٹوٹ کر بکھر گئے اور تہذیب و معاشرت سے لے کر ادب و فن تک، زندگی کے تمام شعبوں کا وقار و اعتبار اور حسن و جمال جن قدروں سے وابستہ تھا، وہ پامال ہوکر رہ گئیں۔ کراچی کی روشنیاں کیا بجھیں، یاروں کے دل بھی بجھ گئے۔ اور نغمہ و شعر کی بساط کراچی ہی میں نہیں، لاہور تک میں الٹتی نظر آئی۔
بس یہی نصیر کا وہ دکھ ہے جسے اس نے بڑے سلیقے اور قرینے سے اپنی غزل کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ ان اشعار میں دل آسائی کی جو کیفیت ہے، وہ تو ظاہر ہی ہے، لیکن اس کیفیت کو نصیر نے کیسا پرکیف آہنگ دیا ہے، کیسی مترنم لے میں اسے ڈھالا ہے! اک جوئے رواں ہے کہ بہتی چلی جاتی ہے اور ہمیں بھی اپنے ساتھ بہائے لیے جاتی ہے۔ کوئی تکلف نہیں، کوئی تصنع نہیں۔ یہ شاعری نہیں، ساحری ہے۔ اور یہ تو صرف چند اشعار ہیں جو میں نے ادھر اُدھر سے نقل کر دیے۔ ورنہ اس کے ہاں بعض غزلیں تو پوری کی پوری ایسی ہیں جن میں اس نے اپنے اسی دکھ کو روتی بسورتی ہوئی آواز میں نہیں، بہت شگفتہ اور تازہ تر اسلوب میں کچھ ایسا بنا سنوار کر پیش کیا ہے کہ اس کے غم میں بھی ایک نشاطیہ آہنگ پیدا ہوگیا ہے۔ ایسی خوش آہنگ، ایسی خوش زمزمہ اور ایسی تازہ کار غزلیں کہ انھیں از اوّل تا آخر پوری کی پوری نقل کرنے کو جی چاہتا ہے۔
آخر میں اتنی بات ضرور عرض کروں گا کہ نصیر اپنی غزل میں جس درد سے بے حال اور جس دکھ سے نڈھال ہے، وہ سنگ و خشت سے تعمیرشدہ کسی شہر کے اُجڑنے یا جلنے کا دکھ نہیں بلکہ اس تہذیبی روح کی بربادی کا دکھ ہے جو تہذیبی معنویت کے سانچے میں ڈھلنے سے پہلے ہی بکھر کر رہ گئی۔
چناں چہ اس کے ہاں راستے کے پیچ و خم میں گم ہو کر رہ جانے والی منزل کا دکھ اور ماضی کے اوراق گم شدہ کا ملال چاہے جتنا بھی ہو، مگر یہ کوئی ناسٹلجیا (Nostalgia) نہیں بلکہ یہ ایک سفر ہے، اس منزل کی طرف جو راہوں کے غبار میں کہیں گم ہوگئی، گم ہوگئی مگر باقی ہے۔ باقی ہے اور آواز دیتی ہے۔ نصیر اس آواز کو سن کر اس کی طرف بڑھتا بھی ہے اور اسے اپنی طرف بلاتا بھی ہے، کبھی امید کے ساتھ، کبھی افسردگی کے ساتھ اور کبھی اپنے دل کے گھٹتے بڑھتے درد کے ساتھ کہ یہ درد تو اس کی جان کے ساتھ نہ جانے کب سے لگا ہوا ہے مگر اپنے سفر میں بار بار پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنے کے باوجود آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی کچھ کم نہیں رکھتا۔ جبھی تو وہ کہتا ہے کہ:
مرا سفر عجب آشوب کا سفر ہے نصیر
وہ آئے جس میں ہو چلنے کا حوصلہ آگے
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
……نصیر ترابی……
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال
شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن
صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیرؔ
وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی