سعادت حسین منٹو 18 جنوری 1955 کو دنیا سے رخصت ہوئےآج ان کی برسی ہے اس موقعے پر خصوصی تحریر نذر قارئین۔
کچھ عرصے سے ذہن ایک بات پر اٹکا ہوا ہے، وہ یہ کہ منٹو کے تخلیقی تجربے اور اس کی زندگی دونوں ہی کو ازسرِنو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ عصرِحاضر کے تناظر میں ان کے معنی متعین کیے جائیں۔ اصل میں یوں تو اصولی طور پر یہ بات طے ہے کہ ہر سماج کو اپنی ادبی تہذیب و تاریخ کے بڑے فن کاروں کو زمانے کے بدلتے ہوئے سیاق میں نئے سرے سے پڑھنا اور سمجھنا چاہیے۔ اس لیے کہ اسی طرح ان کی نئی تفہیم اور وقت کے تغیر میں ان کی عصریت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
منٹو سے ہمارا اوّلین تعارف اُس وقت ہوا تھا جب ہماری زندگی میں بہاروں کے دن تھے۔ اس زمانے میں انسانی حافظے میں جگہ بنانے والی چیزیں تادیر اپنا نقش قائم رکھتی ہیں۔ منٹو ہمارے حافظے کا ایسا ہی ایک نقش ہے۔ لگ بھگ چار دہائیوں کے اِس عرصے میں، ہم نے اُس سے متعدد بار رجوع کیا ہے— اور اب بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ اُسے سمجھنے اور اس کے فن کی لطافتوں اور نزاکتوں کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اُسے وقفے وقفے سے کئی بار پڑھا جائے، اُس پر غور کیا جائے۔
تب ہی یہ ممکن ہوگا کہ اُس کو اس جامعیت کے ساتھ سمجھا جاسکے، جس کا وہ بجا طور پر متقاضی ہے۔ ممکن ہے یہ بات قدرے استعجاب کا باعث ہو کہ ایک افسانہ نگار کے فن پر اس درجہ غوروفکر کی بھی ضرورت ہوسکتی ہے، جب کہ وہ افسانہ نگار زبان بھی صاف لکھتا ہے۔ علاوہ ازیں اُسے ادق موضوعات سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی وہ کسی فلسفے یا نظریے کا علم بردار ہے۔
ہمیں ان میں سے کسی بات سے انکار نہیں۔ ایک حد تک یہ باتیں درست بھی ہیں۔ تاہم غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ اندازِ نظر اُس ناقدانہ روش کا حاصل ہے کہ جو انسانی حقیقت اور اُس کے مسائل کو بھی مادّی اشیا کے خارجی سانچے ہی کے طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرتی ہے جو ظاہر ہے کہ درست نہیں۔ منجمد مادّی شے اور زندہ انسانی وجود (جو ہمیں ادب میں ملتا ہے) کا تجربہ الگ الگ ہوتا ہے اور اس کو جاننے اور سمجھنے کے پیمانے بھی الگ الگ۔ منٹو جو کچھ اپنے خارج میں ہے، اُس کو سمجھنے کے لیے اس سے بھی مدد لی جاسکتی ہے لیکن اس کے فن کی جامع تفہیم کے لیے، اُس کے اسرار و رموز کو کھولنے کے لیے اُس کی ُکنہ تک پہنچنا ضروری ہے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب اُس کے سادہ اسلوب سے آگے بڑھ کر جن پیچیدہ اور تہ دار مسائل پر اُس نے قلم اُٹھایا ہے، اُن پر غور کیا جائے۔
منٹو کے موضوعات اور اسلوب دونوں ہی سادہ ہوتے ہیں۔ ان میں عام طور سے کوئی پیچیدگی نظر نہیں آتی۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ کیا منٹو نے اکہرے کرداروں اور ان کے عام سے مسائل پر افسانے لکھے ہیں؟ نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ منٹو کے کردار اور اُن کے مسائل بظاہر سادہ ہیں لیکن اُن کی نوعیت اور حقیقت پر غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے اندر کس قدر گہرائی رکھتے ہیں۔ یہی حال اُس کے اسلوب کا ہے۔ وہ مشکل حالت کو عام زبان میں بیان کرنے کی عجیب و غریب صلاحیت رکھتا ہے۔ منٹو کے فن کا کمال یہ بھی ہے کہ اُسے زندگی کے پیمانے پر ناپا اور پرکھا جاسکتا ہے۔
فن کار اِس منزل پر اُس وقت پہنچتا ہے جب وہ اپنے موضوعات اور کرداروں کی ساری پیچیدگیوں کو فن کے سانچے میں ڈھالنے سے قبل تحلیل کرکے اپنے ’’گھٹ‘‘ میں اُتارنے کا ہنر پالیتا ہے۔ یہ فن کو زندگی یا زندگی کو فن بنانے والی کاریگری ہے۔ یہی قصہ اس کی زبان کا ہے۔ منٹو کی زبان اصل میں زندگی کی زبان ہے، اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ منٹو ان تخلیق کاروں میں ہے جو اسلوب کے نہیں بلکہ اپنے موضوع کے حوالے سے اہمیت رکھتے ہیں۔
اپنے زمانے میں اور اُس کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک منٹو کو اپنے موضوعات کی حدت کے باعث سماجی ہی نہیں، قانونی سطح پر بھی گونہ گوں مسائل کا سامنا رہا۔ لیکن یہ صرف ہمارے معاشرے اور اُس میں منٹو ایسے فن کار ہی کا مسئلہ نہیں، اقوامِ عالم کے ادب کی تاریخ اٹھا کر دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس نوع کے مضامین اور مسائل پر جو تحریریں منظرِ عام پر آئیں، ان کی طرف ہر معاشرے کا ردِ عمل کم و بیش کچھ ایسا ہی رہا ہے اور ہر بڑا اور جرأت مند فن کار اسی نوع کی صورتِ حال اور مسائل سے دو چار ہوا ہے۔ منٹو نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا، معاشرے کے جن مسائل پر توجہ کی اور انسانی فطرت کے جن تاریک منطقوں کو وہ معرضِ بیان میں لایا، وہ پورے اردو افسانے کی تاریخ میں بلاشبہ اُسی کا حصہ ہے۔
تاہم اُس کی عظمت کا انحصار محض اس امر پر نہیں کہ اُس نے ایسے موضوعات کو چھوا جن کے ذکر تک سے زبانِ قلم پر آبلے پڑ جاتے تھے بلکہ اس کی بڑائی کا ایک وقیع حوالہ یہ بھی ہے کہ اس نے ہمیں انسانوں کو اور انسانی معاشروں کو ان کی مجموعی ہیئت میں، اندر اور باہر سے دیکھنا سکھایا، ان کی اصل کو کسی آدرش، کسی نظریے، فلسفے یا کسی عقیدے کی لیپا پوتی کے بغیر قبول کرنے کی ہمت دی اور ابنِ آدم کی زندگی کو حوا و آدم کے رشتے، اس کی معنویت اور اس کی مختلف صورتوں کے ساتھ ماننے، جاننے اور سمجھنے کا طریقہ بتایا۔
منٹو ایسے کسی بڑے تخلیق کار پر لکھنے کا مطلب ہوتا ہے پورے ایک عہد کے انسانی، تہذیبی اور ادبی تناظر اور اُس کے سوالوں کو سمجھنا اور اُن کا سامنا کرنا- ظاہر ہے اِس نوع کا کام دقّت طلب بھی ہوتا ہے اور وقت طلب بھی۔ پھر یہ بھی کہ منٹو ایسے فن کاروں کو ایک بار پڑھ کر نمٹا نہیں جاسکتا۔ انھیں ایک سے زیادہ بار پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی صورت میں ان کے فن کی معنوی دنیا کی سیاحت ممکن ہے۔
اگر اردو افسانے کی تاریخ میں منٹو پیدا نہ ہوتا تو اردو افسانہ آج جہاں ہے اور جیسا ہے، نہ وہاں ہوتا اور نہ ہی ویسا ہوتا۔ اردو افسانے پر منٹو کے اثرات فکری بھی ہیں، تخلیقی اور فنی بھی۔ منٹو کی فن کارانہ حیثیت اور تخلیقی مرتبے کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ آج بھی فنی اور فکری دونوں اعتبار سے ہمارے ادب اور معاشرے سے ایک زندہ اور معنی خیز relevence رکھتا ہے۔
موجودہ دور کی ہولناک تیز رفتاری اور اس کے ساتھ انسانی زندگی میں بڑھتی ہوئی میکانکیت جو اصلاً ثقافتوں اور ان کے اوضاع کو غارت کرنے پر کمربستہ نظر آتی ہے اور ادب و فن کی طرف جس کا معاندانہ رویہ ڈھکا چھپا نہیں اور جو انسانوں سے سوچنے اور غور کرنے کی عادت چھڑا کر انھیں روبوٹ بنانے اور محض وجودی زندگی بسر کرنے کا عادی بنانے کے لیے کوشاں ہے— ایسے دور میں بھی کسی ادیب کا اپنے فکری عناصر اور تخلیقی حوالوں کے ساتھ اپنی وجودی موت کے ساٹھ پینسٹھ برس بعد بھی اس طرح زندہ اور relevent رہنا، اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ اُس نے صرف اپنے زمانے ہی کو نہیں بلکہ آنے والے زمانوں کو بھی سوچا تھا اور یہ کہ اُس نے اپنے فن میں اُن موضوعات اور مسائل ہی سے سروکار رکھا جو حیاتِ انسانی میں دیرپا اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
اصل میں ایک بڑے تخلیقی نابغے کے فن کی یہ وہی جست ہے جسے ایف آر لیوس Jump over the time barrier کہتا ہے— زمانی حدود و قیود کو پھلانگتی ہوئی تخلیقی جست۔ منٹو کی یہی جست اُسے ہمارے عہد میں لا اُتارتی ہے۔ منٹو آج پھر ہم سے پڑھے جانے کا تقاضا اس لیے بھی کرتا ہے کہ دیکھا جائے اُس کی آج کے انسان اور اس کے ذہنی و وجودی مسائل سے relevance کا اظہار کتنی سطحوں پر اور کن کن شکلوں میں ہوا ہے اور یہ کہ ہمارے ادب و فن کے دائرے میں آج اس کے کیا معانی ہیں۔
منٹو نے اپنے فن کی جو دُنیا آباد کی ہے، اُس میں انسانی رشتوں اور اُس کے احساس کی کیفیات کا جوہر اپنی رنگا رنگی اور بوقلمونی کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس دُنیا کا پھیلائو بھی بہت ہے اور گہرائی بھی بہت زیادہ۔ چناںچہ منٹو کا ہمارے عہد سے جو ربط ہے وہ کبھی اُس کے پھیلائو میں خارجی زندگی اور اُس کے رشتوں اور سماجی مظاہر اور ان کے تغیر میں نظر آتا ہے اور کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی گہرائی کے کسی حوالے سے ہماری روح کے تاروں کو چھیڑ کر ہمارے احساس سے اپنا رشتہ ظاہر کرتا ہے۔ منٹو کے دوبارہ مطالعے اور نئی تفہیم کی ضرورت کا احساس اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ آج اسے سارے الزامات اور اعتراضات سے الگ کرکے دیکھا جانا ممکن ہے۔ اس طرح ہم سے اور ہمارے عصری و سماجی شعور سے اس کا رشتہ واضح ہوکر سامنے آئے گا۔