محبت ایک لازوال جذبہ ہے، پاک و ہند میں اس موضوع کو مدنظر رکھ کر آج تک بے شمار فلمیں بنائیں جا چکی ہیں اور اب تک بن رہی ہیں۔1975 میں فلم ساز ہدایت کار مصنف شباب کیرانوی نے کلاسیک انگریزی ناول ’’لو اسٹوری‘‘ کو میرا نام ہے محبت‘‘ نامی فلم کے لیے منتخب کیا۔ مغربی معاشرے کے نمائندہ اس ناول کو انہوں نے پاکتسانی تہذیب و معاشرے کے سانچے میں ڈھالتے ہوئے ایک سپر کلاسیک سدابہار آل ٹائم ہٹ فلم بنا کر پاکستانی سنیما کا سر فخر سے بلند کیا۔ اس فلم کو نہ صرف پاکستان میں پزیرائی ملی، بلکہ برادر ملک چین میں اس فلم کو جو کام یابی اور پسندیدگی کی سند ملی، اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
یہ فلم وہاں چینی زبان میں ڈب کر کے ریلیز کی گئی، تو چین کی نوجوان نسل نے اس فلم اپنی پسندیدہ فلم قرار دیا۔ چینی عوام نے اس وقت اس فلم کو اپنے لکھے گئے ایک خط میں زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ’’چین میں جو اب تک غیر ملکی فلمیں ریلیز ہوئیں، ان سب میں ’’میرا نام ہے محبت‘‘ سب سے بہترین فلم ہے۔ اپنے خط میں انہوں نے فلم کے مرکزی کردار روشنی (بابرہ شریف) اور ’’حامد‘‘ غلام محی الدن کی کردار نگاری کو سب نے زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ خط میں یہ سب لکھا کہ ہماری چینی زبان میں ایک ضرب المثل ہے کہ سچے اور گہرے جذبات کو اگر خلوص اور فنکارانہ حُسن سے پیش کیا جائے تو اسے دیکھ کر زمین اور آسمان بھی لرز جاتے ہیں ، اس بات کا ثبوت فلم میں ہیرو کا سنگدل باپ ہے، جو فلم کے آخری مناظر میں روشنی کا خط پڑھ کر انٓسوئوں سے رو دیتا ہے۔
سچی اور پرخلوص محبت اپنی ذات میں ایک حُسن ہی نہیں بلکہ اس سے معاشرے کی کثافتوں کی مظہر کا عمل میں جاری ہوتا ہے۔ اسی محبت انسانی شخصیت کی تشکیل نو میں کرتی ہے اور انسانوں کی زندگی کے بارے میں بتائے ہوئے غلط نظریات سے بھی نجات دلاتی ہے۔ یہ بات حد تک متاثر کن فلم ہے کہ اس نے بلاشبہ ہمیں بے حد اچھی نظریاتی تعلیم دی ہے۔ فلم دیکھتے ہوئے ہماری آنکھوں سے بے اختیار آناسو آگئے تھے۔
’’میرا نام محبت‘‘ کی کہانی میں تین کردار بہت اہم ہے۔ پہلا کردار روشی (بابرہ شریف) کا ہے، جس نے ایک ایسی معصوم شگفتہ لڑکی کا رول پلے کیا ہے، جس کا دل مرجھایا ہوا ہے، یہ بڑا مشکل کردار تھا، جسے انہوں نے بہت عمدگی سے ادا کیا۔ بابرہ جو اس وقت نئی اداکارہ تھیں۔ یہ بہ طور سولو ہیروئن ان کی پہلی فلم تھی۔ اپنے اس کردار میں انہوں نے اپنے ہونٹوں اور آنکھوں سے بے حد خُوب صورت کام لیا۔ محبت اور وفا کی ایک ایسی پیکر نظر آہیں کہ یہ کردار ان کے فنی کیریئر کا سنگ میل ثابت ہوا۔وہ محبت کی عظمت اور بلندیوں کو چھوتی ہوئیں نظر آئیں۔
دوسرا کردار فلم کے ہیرو حامد (غلام محی الدین) کا تھا، جو ایک مغرور دولت مند باپ کا بیٹا ہے، جو حادثاتی طور پر روشی سے ملتا ہے اور پھر چند ملاقاتوں کے بعد دونوں جنون کی حد تک ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتے ہیں ۔ اپنے اس کردار میں وہ بڑی حد تک کام یاب رہے، شوخ و چنچل انداز میں اپنی محبوب کو چھیڑ چھاڑ اور گاتے ہوئے مناتے ہیں، انہوں نے اپناے اس کردار میں، جہاں شوخ انداز میں اداکاری کی تو فلم کے دوسرے ہاف میں وہ سنجیدہ کردار نگاری میں بھی کام یاب رہے۔
حامد کا دولت مند گھمنڈی باپ اس کی شادی اپنے دوست کی بیٹی سے کرنے کے خواہشمند تھے، لیکن روشنی سے ملنے کے بعد حامد نے اپنے باپ کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے مسترد کر دیا، جس کے نتیجے میں اسے گھر اور دولت سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ روشی کا باپ (علائو الدین) اپنی بیٹی کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں کی شادی کر دیتا ہے۔ تیسرا کردار حامد کے باپ سیٹھ ارشاد (ریحان) کا تھا، جسے اپنی دولت اور مرتبے پر بڑا گھمنڈ تھا، اس نے اپنے بیٹے کو ایک عام غریب لڑکی سے محبت کرنے کی وجہ سے اپنی جائیداد سے عاق کر دیا۔
’’میرا نام ہے محبت‘‘ ایک بہت مشکل اور نازک موضوع تھا،جسے شباب کیرانوی نے اپنی ذہانت اور مہارت سے کچھ اس انداز میں فلمایا کہ یہ فلم ہر عام و خاص نے پسند بن گئی۔ اس کہانی کے بارے میں وہ کہتے تھے، دنیا میں انسان کے پاس محبت سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں ہوتی۔ یہ کہانی دو دلوں کی دھڑکنوں کا ایسا فسانہ ہے جس میں زندگانی کا ترنم بھی ہے اور محبت کا تبسم بھی۔ اس میں وہ المیہ بھی ہے۔ حُسن و عشق کے سنگم کی ایک امر کہانی جو محبت کی دنیا میں ہمیشہ یادگار بن کر زندہ رہے گی۔
’’سمجھتا ہے سارا جہاں یہ حقیقت محبت خدا ہے، خدا ہے محبت، محبت کو دے جائیں گے اتنی عظمت،یہ دنیا محبت کو سجدہ کرے گی‘‘ یہ وہ پیغام ہے جو اس فلم کے ذریعے عالمگیر سطح پر دیا گیا۔ روشی اور حامد کی محبت کا افسانہ ایک ناقابل فراموش داستان ہے۔ ’’یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم
کہانی محبت کی زندہ رہے گی،کبھی گیت بن کر لبوں پہ سجے گی،کبھی پھول بن کر یہ مہکا کرے گی۔
فلموں کے دیگر شعبہ جات میں بہ طور فوٹو گرافر صادق موتی نے بڑی تیکنک سے ان ڈور اور آئوٹ ڈور مناظروں کی عکس بندی کی۔ مری کی برف پوش پہاڑوں میں فلمائے ہوئے مناظر اور نغمات نہایت دل کش اور لاجواب تھے۔ فرح حسین جو کیمرہ مین تھے، انہوں نے لونگ شارٹس میں بھر پور کارکردگی دکھائی۔ ایورنیو اسٹوڈیو کی لیبارٹری میں پیارے خان کی زیرنگرانی میں فلم کے کلر پرنٹس کی پروسیسنگ کا کام میں بے حد لاجواب تھا۔
کیمرہ مین لائٹنگ کو پیارے خان کے نہایت خوب صورت انداز میں پرنٹوں میں سمویا۔ اس پورے مرحلے میں مسعود مرزا ان کے معاون تھے۔ ان پرنٹوں کو ایک خاص ردھم اور رفتار کے ساتھ ایڈیٹر جاوید طاہر نے عمدہ ٹیمپو کے ساتھ ایڈیٹ کرکے اپنے کام کو قابل تعریف بنایا۔ فلم بین پوری فلم میں کہیں بھی اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوئے۔
یہ کمال ایڈیٹر کا ہے، جس میں ان کے معاون طاہر ریاض اور نعیم طاہر بھی شامل تھے۔ فلم میں مکالموں گانوں اور پس منظر موسیقی کی واضح اور شفاف آواز کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ اس فلم کی صدابندی مکالموں کی گلزار علی نے کی، جب کہ گانوں اور ریکارڈنگ کا کام اختر جیلانی کے تجربے کا نچوڑ ثابت ہوئی۔ اداکاروں کے چہروں کے خُوب صورت نفش و نگار اور انہیں سین کی ڈیمانڈ کے مطابق میک اپ کے فرائض ادریس نے انجام دیے۔ بابرہ شریف کا معصوم چہرے اور مسکراہٹ کے دل کش میک اپ میں انہوں نے کمال کردیا۔ غلام محی الدین کے آخری مناظر میں جذباتی مناظر اور مکالموں کے وقت میک اپ ان کے بہنے والے انسوئوں کے ساتھ بہتا ہوا نظر آیا۔ جو ایک خامی تھی، انکھوں میں مصنوعی آنسوئوں کے لیے گلیسرین کا استعمال ضرورت سے زیادہ ہوگیا۔
بابرہ کا ہیئر اسٹائل بھی بے حد خوب رہا، جس کے لیے نسیم اور صدیق نے اچھا ورک کیا۔ غلام محی الدین کا ہیئر اسٹائل کچھ زیادہ متاثر نہ کر پایا ،جب کہ دیگر فن کاروں کے میک اپ اور ہیئر اسٹائل ان کے کرداروں کے مطابق تھے۔ تمام سیٹ اور ان کی خُوب صورتی میں آرٹ ڈائریکٹر ایم رمضان کا ہنر بھی ہر منظر میں داد پاتا ہوا دکھائی دیا، جہاں تک اداکاروں کے ڈریسز کا تعلق تھا، تو وہ بھی مناسب رہے۔ بابرہ شریف اس معاملے میں بہت ہی خیال کرنے والی اداکارہ ہیں، انہیں اپنے کردار کے مطابق ڈریسز کا استعمال بھی بڑے سلیقے سے آتا ہے۔ فلم کی موسیقی ایم شرف نے ترتیب دی تھی۔ ان کے معاون اسحاق اور اعجاز تھے۔ انہوں نے اس فلم کے لیے سدا بہار گیت مرتب کیے،جن پر نیلم فاضلی کے بولوں نے ہر طرف خوش بو بکھیر دی۔
بابرہ شریف اور غلام محی الدین کے علاوہ فرزانہ، تمنا، ریحان، کمال ایرانی، اختر شاد، زرقا، حسن رضا، مسعود اختر، ممتاز جہاںؒ، خالد سلیم موٹا، نرگس، نیلم، قمر جہاں، مانظر، بہار اور علائو الدین کے نام بھی فلم کی کاسٹ میں شامل تھے۔ یہ فلم کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔