گزشتہ سال سے ملک میں شکر کے بحران کے باعث لوگوں میں گڑ کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے میرپورخاص سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں گڑ سازی کا کام عروج پر ہے، جو گھریلو صنعت بن گیا ہے۔ قدرت نے ’’بھٹ دھنی ‘‘کی سرزمین سندھ کو ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے۔یہاں گندم،چاول،کپاس کے علاوہ وافر مقدار میں گنے کی پیداوار ہوتی ہے ۔گنے کے رس کا مختلف طریقےسے استعمال کیا جاتا ہے، اسے بہ طور مشروب بھی لوگ انتہائی شوق سے پیتے ہیں۔گنے سے سفید شکر کے علاوہ مختلف اقسام کا گڑ بھی تیار ہوتا ہے۔ایک وقت تھا جب سندھ میں شکر تیار کرنے کے کارخانو ںکی تعداد انتہائی کم تھی ۔
دیہی علاقےکے لوگ چائے اور دیگر مشروبات میں گڑ کا استعمال کرتے تھے ۔ آج بھی شہروں میں سردیوں میںزیادہ ترلوگ گڑ ، دار چینی اور لونگ کی چائے پیتے ہیں۔ریستوران اور چائے خانوں میں سبز قہوےکے ساتھ لیموں کے ساتھ گڑ کی چھوٹی چھوٹی ڈلیاں دی جاتی ہیں۔ میرپورخاص سمیت سندھ کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں دیسی شکر اور گڑ کی بڑی ماکیٹیں ہوتی تھیں۔سندھ کے گڑ کاشمار وادی مہران کی قدیم سوغات میں ہوتا ہے۔ دسمبر ،جنوری اور فروری کے مہینوں کو گڑ کی تیاری کے لیے آئیڈیل تصور کیا جاتا ہے ۔گڑسازی ،کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لئے برسوں کی مہارت اورتجربہ درکارہوتا ہے اوریہ کام مختلف مراحل میں کیا جاتا ہے۔
سب سے پہلے کھیتوں سےگنا لاکرپانی میں ڈال کرصاف کرتے ہیں۔ اس کے بعد اس کا رس نکالاجاتا ہے۔گنے کا ایک بڑے کڑاہے میں ڈال کربھٹی پررکھ دیاجاتا ہے جہاں کئی گھنٹے تک یہ کڑاہی میں پکتا رہتا ہے یہاں تک کہ گاڑھا ہوجاتاہے۔کڑاہے میں جوش کھاتے گنے کے رس میں سوڈا اور رنگ کاٹ بھی شامل کیا جاتا ہےتاکہ اس میں شامل میل کچیل ختم ہوجائے،اس سے گڑ کا رنگ صاف ہوجاتا ہے۔ گنے کا رس جب گاڑھا ہوجاتا ہے تو پھر اسے ٹھنڈا کیا جاتا اور آخر میں اس کی پنیاں بنائی جاتی ہیں۔ گڑکی بجائے اگر دیسی شکر بنانا مقصود ہو تو پھر اس کو ٹھنڈا ہونے کے ساتھ لکڑی کی مدد سے مکس کیا جاتا ہے۔
ایک سروے کےمطابق گزشتہ ماہ سے میرپورخاص سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں گنے کے آبادگاروں نے اپنے طور پر گڑ تیار کرنے کے لیے الائو جلا دیئے ہیں جہاں گڑ بنانے کاکام جاری ہے جو فروری کے آخر تک جاری رہے گا۔۔ گڑ کی تیاری کے موقع پرعجب ماحول اور گہما گہمی نظر آتی ہے۔ گڑ سازی کےرحجان میں اضافے کے حوالے سے زمیندار محمد عمر بگھیو اور لیاقت علی آرائیں کا کہنا ہے کہ گنے کے مناسب نرخ نہ ملنے اور بروقت ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے آبادگاروں میں دیسی گڑ تیار کرنے کے رحجان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی گڑ کی تیاری میں روایتی طریقے اور قدیم آلات استعمال کیے جاتے ہیں۔ گنے سے گڑکی تیاری تک کا سفر خاصا محنت طلب ہوتا ہے۔اس کی تیاری میں سب سے پہلا مرحلہ گنے کی کھیتوں سے کٹائی اور اسے کھیت کے ہی حصہ میں بنے ہوئےگڑ سازی کے کارخانے تک لانا ہوتا ہے، جہاں گنے کو بیلنے میں سے گزار کر اس سے رس حاصل کیا جاتا ہے۔ اس رس کو ایک بہت بڑے کڑاہے میں ڈال کر اس کے نیچے آگ جلائی جاتی ہے۔ اس عمل کے دوران گنے کے رس میں میٹھا سوڈا اور دیگر کیمیاوی مواد ڈال کر اس میں شامل مختلف کثافتوں کو الگ کیا جاتا ہے۔گنے کا رس مسلسل آگ پر پکنے کے بعد لئی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔اس مرحلہ پر اسے ٹھنڈا کرنے کی غرض سے لکڑی کے بنے ہوئے ایک بڑے کھلے برتن میں ڈالا جاتا ہے۔
ٹھنڈا کرنے کے عمل کے دوران اسےمسلسل ہلایا جاتا ہے تاکہ یہ خستہ رہے۔جب اس کے اوپر کی سطح ٹھنڈی ہو کر سخت ہونا شروع ہوجاتی ہے تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ اب گڑ کی بھیلیاں بنانے کے لیے تیار ہے اور پھر ایک مخصوص سانچے کےذریعہ ہاتھوں سے ہی گڑ کی مختلف سائز کی بھیلیاں بنائی جاتی ہیں۔یہ گڑ زیاتر سفید اور بھورے رنگ کا ہوتا ہے۔مونگ پھلی، کھوپرا ڈال کر بھی گڑ تیار کیا جاتا ہے جبکہ صاحب ثروت لوگ اور شوقین حضرات آرڈر پر کھوپرا،کاجو، بادام کی آمیزش سے بھی گڑتیار کراتے ہیں۔کارخانوں میں تیاری کے بعدگڑ کو مارکیٹوں میں لے جایا جاتاہے جہاں لوگ اسے خرید کرسفید شکر کے متبادل کے طور پر چائے یا دیگر مشروبات میں استعمال کرتے ہیں۔ اس سے گھروں میں گلگلے اور باجرے کی میٹھی ٹکیاں بھی بنائی جاتی ہیں جو انتہائی خو ش ذائقہ ہوتی ہیں۔
کارخانوں میں گڑ کی آمیزش سے کھانے کی مختلف میٹھی اشیاء بھی تیار کی جاتی ہیں۔گڑ سے تیار کی جانے والی لائی بڑوں کے علاوہ بچوں میں بھی پسند کی جاتی ہے ۔ عام لوگ یہ سمجھتے ہے کہ اس میٹھی سوغات کو بنانا بہت آسان کام ہے مگر در حقیقت اس کو بنانے کیلئے بھی بہت محنت درکار ہوتی ہے یہ کام چاول کی تازہ فصل کے تیار ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور دو سے تین مہینوں تک ہی چلتا ہے اس لیے لائی صرف دسمبر سےمارچ تک لوگوں کو تازہ ملتی ہے۔ لائی کو پکانے کیلئے ایک تندور بنایا جاتا ہے جس پر پہلے چاول ابالے جاتے ہیں جس کی وجہ سے چاول کی جسامت بڑھ جاتی ہے، پھر ان چاولوں کو تھوڑا سا خشک کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ایک کڑاہی میں گڑ ڈالا جاتا ہےجسے تیز آنچ پر رکھتے ہیں،گڑ پانی کی طرح بن جاتا ہے۔
جب گڑ گاڑھی شکل اختیار کر لیتا ہے، تو اس میںابلے چاول ڈال کر اچھی طرح گھمایا جاتا ہے تاکہ گڑ اور چاول مل جائیں۔ انہیں یکجا کرنے کے بعد ایک بڑے سے تھال میں ڈالاجاتا جس کے بعد اس پر روٹی والا بیلن گھمایا جاتا ہے۔ لائی جب بن رہی ہوتی ہے تو اس کی مہک دور تک محسوس کی جاتی ہے ۔ لائی کی تیاری مختلف انداز میں کی جاتی ہے۔ مونگ پھلی کی لائی، بادام کی لائی، چنے کی لائی، تل کی لائی اور دیگر کئی اقسام کی لائی بنائی جاتی ہے جو بازاروں میں دستیاب ہوتی ہے۔ چاول کی لائی پورے ملک میں بنائی جاتی ہے۔ مختلف علاقوں میں اسے الگ الگ ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔
سندھ میں چاول کی لائی کے کارخانے زیادہ تر لاڑکانہ اور نواب شاہ میں قائم ہیں۔ جیکب آباد میں لائی چاول کے بجائے خشک میوہ جات سے تیار کی جاتی ہے۔گڑ اور تلوںکی آمیزش سے تیار کی گئی گزک اور چھوٹے چھوٹے لڈو بھی بہت لذیز ہوتے ہیں،جو دکانوں اور ٹھیلوں پر سستے داموں دستیاب ہوتے ہیں ۔موسمِ سرما میںتل کےلڈو، گزک، مونگ پھلی کی پٹی اور گُڑ کی پٹی کھانا کس کو پسند نہیں ہوگا اور خاص طور پر سردیاں آتے ہی ان چیزوں کی مانگ میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
ماہرین طب اس کے استعمال کوسفید شکر کی بہ نسبت زیادہ مفید قرار دیتے ہیںاس کی تاثیر گرم ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اگراس کا استعمال سردموسم میں کیا جائے تو یہ جسم میں گرمی پیداکرے گا۔اس کا استعمال ِ قوت مدافعت بڑھانے میں بھی فائدہ مندہوتا ہے۔ گُڑ جسم کے اعضاء کے لیے ’’’کلیننگ ایجنٹ‘‘ ہے، جو پھیپھڑوں، معدے، آنتوں، گلے اور سانس کی نالی کی صفائی کے لیے بہترین ثابت ہوا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے شوگرملوں کی بلیک میلنگ اور شکر کی قیمت میں ہر چند روز بعد ہوش رباء اضافے کو ختم کرنے کے لیے گڑسازی کی گھریلو صنعت کو فروغ دیا جائے ۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب لوگ سفید شکر کا استعمال ترک کرکے دیسی چینی اور گڑ کواستعمال کریں گے۔