• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگرچہ پاکستان معاشی شیر بننے کیلئے 73 سال سے جدوجہدمیں مصروف ہے، لیکن جنوبی ایشیاء کی دیگر اقوام اِس دوڑ میں کافی آگے بڑھ گئی ہیں۔ بدعنوان رہنماؤں کو پکڑنے اور سزا دینے میں ہمارے نظامِ عدل کی ناکامی کے باعث بھی ملک کو مسلسل آمریت کا سامنا رہا۔اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ترقیاتی فنڈز کا ایک بڑا حصہ صوبوں کو منتقل کردیا گیاہے جو ہمارےبعض بدعنوان رہنماؤں کے غیر ملکی ناجائز اثاثوں میںتبدیل ہوگیا۔ بلدیاتی انتخابات کروانے میں صوبائی حکومتوں کی ہچکچاہٹ نے ہمارے پارلیمانی نظام کو بے نقاب کردیاہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ہمیں مندرجہ ذیل الفاظ میں صوبائیت کے زہر کے بارے میں متنبہ کیا تھا’’ آپ سے کہتا ہوں کہ اس صوبائیت سے نجات حاصل کرو، کیوں کہ جب تک آپ اس زہر کو پاکستان کی سیاست میں برداشت کریں گے، کبھی ایک مضبوط قوم نہیں بن سکیںگے، اور آپ کبھی اس مقصد کو حاصل نہیں کرسکیں گے جو میری خواہش ہے کہ ہم حاصل کریں‘‘ (تقریر، عوامی جلسہ، ڈھاکہ، 21مارچ 1948)۔ افسوس، تاریخ نے اسے سچ ثابت کردیااور آج ملک صوبائیت کا شکار ہے۔

پہلا صنعتی انقلاب 1765میں توانائی کے لئے کوئلے کے استعمال ، بھاپ کے انجن، ریل، روڈ اور بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ اور میکانیکیشن کی ابتدا سےشروع ہوا۔ دوسرا صنعتی انقلاب 1870میں شروع ہوا، اس نے توانائی کے نئے مظاہرجیسے بجلی، تیل، گیس کے استعمال کا مشاہدہ کیا۔ فورڈکمپنی کے ذریعےبڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کا تصور پیش کیا گیا ۔ اس طرح دُنیاکا پہلا اسمبلی پلانٹ فورڈکمپنی نے قائم کیااور آٹوموبائل کی تیاری کا آغاز 1904میں ہوا۔ افسوس کہ برصغیر پاک و ہند، ان دونوں صنعتی انقلابات سے دُور رہا کیونکہ اس خطے میں برطانوی تسلط قائم تھا۔ تیسرا صنعتی انقلاب 1969میں شروع ہوا، جس کی بنیادجوہری توانائی اور الیکٹرونکس کا وسیع پیمانے پر استعمال تھا اور کمپیوٹر اور ٹیلی مواصلات کے شعبوں میں پیشرفت ایک بڑی کامیابی تھی۔ اب ہم انٹرنیٹ کے ذریعے وسیع رابطے، پروگرامز پر کنٹرول اور صنعتوں میں روبوٹ کے استعمال کے ساتھ چوتھے صنعتی انقلاب میں داخل ہو چکے ہیں۔ ہم مصنوعی ذہانت، اگلی نسل،توانائی ذخیرہ کرنے کے نظام اور بجلی کی گاڑیوں میں پیشرفت کے ساتھ پانچویں صنعتی انقلاب کا آغاز کرچکے ہیں۔ ایسے شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے ہی پاکستان تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے۔

مستقبل میں حکومت کو چند اہم اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ سب سے پہلے قومی تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان فوراً کرنا چاہئے اور اپنے تعلیمی نظام کا پوری طرح سے جائزہ لینا چاہئے جو اِس وقت تباہی کے دہانے پر ہے۔ ہمیں بیرون ملک کی معروف یونیورسٹیوں میں کم از کم 70,000افراد کوپی ایچ ڈی کی تربیت دے کر اپنے سائنسی اداروں کو ترقی دینے کی ضرورت ہے اور تنخواہوں اور لبرل ریسرچ گرانٹس کی کارکردگی پر مبنی میعاد ٹریک نظام کی بحالی کے ساتھ انہیں واپس پاکستان آنےکی طرف راغب کرنا ہوگا جیسا کہ میں نے چیئرمین ایچ اِی سی ہونے پر کیا تھا۔ پاکستان میں غیرملکی یونیورسٹیوں کے نیٹ ورک کے قیام کے پروگرام کو دوبارہ شروع کیا جانا چاہئے تاکہ ہمارے طلباء ملک میں رہتے ہوئے ہی اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کر سکیں۔ نئے اسٹارٹ اَپس کے لئے وینچر کیپیٹل فنڈ، ٹیکنالوجی پارکس اور بزنس انکیوبیٹرز قائم کئے جائیں اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی صنعتی تیاری اور برآمد کے لئے طویل مدتی ٹیکس کی چھوٹ دے کر جدت اور کاروبار کو فروغ دیا جائے۔ ہمیں نجی شعبے میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ نجی شعبے کی ترقی، ترقی یافتہ ممالک اور اُبھرتی ہوئی معیشتوں کی کامیابی کی ضامن ہے۔ چین میں آر اینڈ ڈی کے اخراجات کا تقریباً 70فیصدحصہ نجی شعبے سے آتا ہے۔ کوریا میں تقریباً 75، جرمنی میں 70اور امریکہ میں 68فیصد آتا ہے۔ تاہم، پاکستان میں یہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے ماضی کے منصوبہ سازوں میں دُور اندیشی کی شدید کمی رہی ہے۔ مشرف نے ایم پی اے / ایم این اے کے لئے گریجویٹ ہونے کی شرط عائد کی تھی۔ بدقسمتی سے، بہت سارے سیاستدانوں نے اپنی ڈگریاں جعلی بنائیں اور پارلیمنٹ میں آ گئے۔ تقریباً دوسو پارلیمنٹیرین کی بالآخر مشتبہ یا جعلی ڈگریاں پائی گئی تھیں۔ ان دھوکے بازوں میںسے کچھ آخر کار وفاقی وزیر بھی بن گئے ، ایک حضرت تو وفاقی وزیر تعلیم بھی بن گئے، اب ان لوگوں کو جعلسازی اور بدعنوانی کے الزام میں جیل کی سزا کا سامنا کرنا چاہئے۔

ترقی کا اہم ستون مکمل طور پر اصلاح شدہ انصاف کاایسانظام ہے جو مقدمہ دائر ہونے کے 20دن کے اندر انصاف فراہم کرتا ہو۔ اگر ہم کنٹریکٹ پر 4,000ججز تعینات کریں جن کو ہر ماہ کم از کم 5مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لئے واضح ذمہ داریاں دیں تو سالانہ 240,000مقدمات کا فیصلہ نچلی عدالتوں میں ہو سکتا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں میں بھی ایسی ہی حکمت ِعملی اپنائی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ یہ کام کرنے کا عزم ہو اور کچھ فنڈنگ دی جائے تاکہ انصاف کے نظام کو مکمل طور پر نئی شکل دی جاسکے۔پاکستان کی ترقی تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے میں منحصر ہے۔ صرف ان شعبوں کو اولین ترجیح دے کر ہی ہم اعلیٰ ٹیکنالوجی کے سامان کی تیاری اور برآمد کرسکتے ہیں اور خود کو غربت اور لاعلمی کے طوق سے نجات دلاسکتے ہیں۔ یہ ایک ایماندار، پر بصیرت اور تکنیکی طور پر اہل قیادت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

تازہ ترین