• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی ادارۂ صحت، بین الاقوامی ایجینسی فار ریسرچ آن کینسر (IARC: International Agency For Research On Cancer) اور یونین فار انٹرنیشنل کینسر کنٹرول (UICC: Union For International Cancer Cantrol) کے زیر ِاہتمام دُنیا بَھر میں ہر سال 4فروری کو ’’کینسر کا عالمی دِن‘‘ مختلف تھیمز کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ 2019ء تا 2021ء کےلیے جو ایک تھیم منتخب کیا گیا ہے، وہ "I Am And I Will" ہے،یعنی مَیں ہوں اور مَیں رہوں گا۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دُنیا بَھرمیں ایک کروڑ 81 لاکھ مریض سرطان کا شکار ہیں،جب کہ گزشتہ برس96 لاکھ مریض اس مرض کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے تھے۔ عالمی سطح پر ہر چھے اموات میں سے ایک موت سرطان کی وجہ سے ہوتی ہے، جب کہ 70 فی صد اموات کا تعلق کم اور درمیانی آمدنی والے مُمالک سے ہے۔

انسان چاہے کسی بھی نوعیت کے مرض میں مبتلا ہو، خود کو انتہائی بے بس محسوس کرتا ہے اور بسا اوقات زندگی سے انتہائی مایوس ہو جاتا ہے۔ اسی بناء پر خوش گوار زندگی کو صحت و تن درستی سے مشروط سمجھا جاتا ہے۔حدیثِ مبارکہﷺہے، ’’ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ صحت کو بیماری سے پہلے۔‘‘بعض عوارض اپنی نوعیت کے اعتبار سے خاصے خطرناک اور تکلیف دہ ہیں اور سرطان بھی اُن ہی عوارض میں سے ایک ہے۔ ٹیکنالوجی، انفارمیشن اور جدّت کی اس دُنیا میں اگرچہ اب یہ مرض لاعلاج نہیں رہا، تاہم بعض صُورتوں میں دیگر امراض کی نسبت مہلک گردانا جاتا ہے۔ سرطان خلیات کی خرابی کا ایک عارضہ ہے۔ 

دراصل جب ضرورت سے زائد نئے خلیات بلاوجہ پیدا ہونے لگیں یعنی ایک سے دو، دو سے چار، چار سے آٹھ اور پُرانے،ناکارہ خلیات بھی اپنی جگہ برقرار رہیں، تو غیر ضروری خلیات کا یہی اضافی ڈھیر سرطان یا کینسر کہلاتا ہے۔ یوں تو سرطان لاحق ہونے کی مختلف وجوہ ہیں۔ تاہم، عمومی طور پر اس عارضے میں مبتلا ہونے یا اس سے ہونے والی ایک تہائی اموات کا تعلق طرزِزندگی اور غذا سے ہے۔ جیسے جسمانی سرگرمیوں کا فقدان، زائد وزن(موٹاپا)، پھلوں اور سبزیوں کا کم استعمال، فوڈ کیمیکلز، جینیاتی طور پر تبدیل کی جانے والی غذاؤں، تمباکو اور الکحل وغیرہ کا استعمال۔ علاوہ ازیں، آلودہ پانی و ہوا، تاب کاری اثرات، فیکٹریوں، کارخانوں، مِلوں اور انڈسٹریز سے نکلنے والی گیسز، زہریلا دھواں اور کچھ دیگر عوامل بھی مرض لاحق ہونے کی وجہ بن سکتے ہیں۔ 

سرطان لاحق ہونے میں نہ تو عُمر کی کوئی قید ہے اور نہ ہی جنس کی۔اس مرض کی کئی اقسام ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا بَھر میں پھیپھڑوں اور بریسٹ کے سرطان کے20، 20 لاکھ، بڑی آنت کے 18 لاکھ، پروسٹیٹ کے 12 لاکھ، جِلد اور معدے کے قریباًدس دس لاکھ مریض موجود ہیں۔ رہی بات پاکستان کی، تو یہاں سرطان کے لگ بھگ 14لاکھ رجسٹرڈ مریض ہیں، جب کہ ہر سال قریباً 80 ہزار افراد سرطان کی مختلف اقسام کے شکار ہوکر انتقال کرجاتے ہیں۔لیکن درحقیقت مریضوں کی اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے کہ متعدّد کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ ہمارے یہاں منہ، پھیپھڑوں اور بریسٹ کا سرطان عام ہےاور افسوس ناک امر یہ ہے کہ پھیپھڑوں اور منہ کے سرطان میں مبتلا مریض خود اپنے ہاتھوں سرطان خریدتے ہیں۔

پھیپھڑوں کا سرطان: پھیپھڑوں کا سرطان لاحق ہونے کی ایک بڑی وجہ تمباکو نوشی ہے کہ اس علّت میں مبتلا افراد میں یہ مرض لاحق ہونےکے امکانات 50 فی صد بڑھ جاتے ہیں،جب کہ اس سے اجتناب برت کر90 فی صد امکانات کم کیے جاسکتے ہیں۔ اگر علامات کی بات کی جائے ،تو زیادہ تر کیسز میں ابتدائی علامات ظاہر نہیں ہوتیں اور متاثرہ فرد کاجب کسی بھی وجہ سے سینےکا ایکس رے یا سی ٹی اسکین وغیرہ کیا جائے، تو ہی مرض تشخیص ہوتا ہے۔

تاہم، عام علامات میں مسلسل کھانسی، کھانسی کے ساتھ خون کا آنا، آواز میں تبدیلی، سانس لینے میں دشواری، سانس میں خرخراہٹ اوروزن میں متواتر کمی شامل ہیں۔اس کے علاوہ اپنے وزن سے متعلق بھی محتاط رہنا چاہیے۔ اگرچہ ہمارے یہاں میں وزن کم یا زیادہ ہونے کو معمولی بات سمجھا جاتا ہے، مگر خیال رہے کہ مختصر مدّت میں غذا اور ورزش کی تبدیلی کے بغیر وزن تیزی سے کم ہو ناکینسر کی ممکنہ علامت ہو سکتی ہے۔ 

خاص طور پر اگر وزن میں کمی کے ساتھ تھکاوٹ اور کم زوری بھی محسوس ہو۔ علاوہ ازیں، اگر علاج کے باوجود کھانسی میں افاقہ نہ ہو اور تھوک میں خون بھی آنا شروع ہو جائے،تو ایسی صُورت میں احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ فوراً ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔ شہروں کے لوگوں میں پھیپھڑوں کے سرطان کا رسک اس لیے بھی زیادہ ہے کہ عمومی طور پر شہری ماحول دیہات کی نسبت زیادہ آلودہ ہوتا ہے اور پھر شہروں میں تمباکو نوشی بھی عام ہے۔

منہ کا سرطان: عالمی سطح پر کینسر کے واقعات ، اموات اور پھیلائو پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے"Globocan"کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں منہ کا سرطان مَردوں میں سب سے زیادہ اموات کا باعث بنتا ہے۔یہ 90فی صد اُن افراد کو اپنا نشانہ بناتا ہے، جو پان، چھالیا، گٹکے، تمباکو اور الکحل کا استعمال کرتے ہیں۔

اگرچہ ان علّتوں میں مبتلا افراد وقتی طور پر تو سُکون حاصل کرلیتے ہیں، لیکن جب اس بیماری کا شکار ہوجائیں، تو منہگے آپریشن اور ریڈیائی شعاؤں کے صبر آزما اور تکلیف دہ پیچیدہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔پھر تمام تر علاج کے باوجود40سے 45فی صد جان کی بازی بھی ہار جاتے ہیں،جب کہ50سے55 فی صد بچ جانے والے مریضوں کو بھی ایک مشکل زندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ شفاپانے والے بعض افراد ان مضرِ صحت اشیاء کا دوبارہ استعمال شروع کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں منہ، گلے اور غذا کی نالی کے سرطان کے علاوہ جسم کے دوسرے حصّوں کا بھی سرطان لاحق ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

بریسٹ کینسر:ایشیائی مُمالک، خاص طور پر پاکستان میں بریسٹ کینسر کی شرح سب سے بُلند ہےکہ یہاں ہر نویں خاتون کو بریسٹ کینسر کے خطرے کا سامنا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق سالانہ 90 ہزار خواتین اس عارضے کا شکار ہوتی ہیں، جب کہ40ہزار انتقال کرجاتی ہیں۔اگر یہ مرض ابتدائی مرحلے ہی میں تشخیص ہوجائے، تو اس پر سو فی صد قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں امریکن سوسائٹی آف کینسر نے بعض رہنما اصول وضع کیے ہیں،جو بریسٹ کینسر کی ابتدائی تشخیص میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ 

جیسے٭جب کسی خاتون کی عُمر 20سال ہو جائے، تو وہ ہر مہینے بریسٹ کا خود معائنہ کرے۔٭ 20 سے 39سال کی عُمر والی خواتین ہر تین سال بعد ایک بار ڈاکٹر سے معائنہ کروائیں۔٭ 40سال کی عُمر کے بعد سال میں ایک بار معائنہ اور معالج کے مشورے سے میموگرافی کروائی جائے۔ بریسٹ کینسر کی واضح علامت گلٹی ہے، جب کہ دیگر علامات میں نِپل سےخون یا رطوبت کا اخراج، نِپل اندر دھنس جانا، خلیات سے چپک جانا، بریسٹ میں درد، رنگت بدل جانا اور کھال میں نارنگی کے چھلکے کی طرح چھوٹے چھوٹے سوراخ بننا شامل ہیں۔

اگر خاندان میں خاص طور پر والدہ، بہن، خالہ،نانی یادادی بریسٹ کینسر کا شکار ہوں،تو مرض لاحق ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے،جب کہ مینوپاز، گیارہ سال کی عُمر سے قبل ماہ واری آ نا،بانجھ پَن،40سال یا اس سے زائد عُمر میں پہلا حمل ٹھہرنا، موٹاپا، غلط رہن سہن ، غیر متوازن غذائیں،مانع حمل ادویہ اور الکحل کا استعمال وغیرہ بھی وجہ بن سکتے ہیں۔ بریسٹ کینسر کی تشخیص جس قدر جلد ہوگی، پیچیدگیوں کے امکانات اُتنےہی کم ہوں گے۔

سرطان اور کورونا وائرس :کینسر کی تشخیص وعلاج سے متعلق جاننے سے قبل سرطان کے ممکنہ یا مصدّقہ مریضوں پر کورونا وائرس کے مضر اثرات سے متعلق بعض بنیادی باتوں کا جاننا بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ اس وقت پوری دُنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے اور یہ وائرس پھیپھڑوں اور بعض اوقات دماغ پر حملہ آور ہوتا ہے۔ ویسے توکووِڈ-19 عمومی حالات میں اس قدر مہلک نہیں ہے، لیکن بعض صُورتوں میں مریض کو موت کی دہلیز تک پہنچا دیتا ہے۔ گرچہ اس وائرس سے بچاؤ کی ویکسین دریافت ہوچُکی ہے، مگر افسوس کہ زیادہ تر افراد کی اس تک رسائی نہیں، تو ان حالات میں کبچاؤ کا واحد ذریعہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہی ہے۔

تاحال اس وائرس کے حوالے سے جو تحقیقات سامنے آئی ہیں، اُن کے مطابق ایسے مریض، جو سرطان میں مبتلا ہوں، وہ اس وائرس کا باآسانی شکار ہو سکتے ہیں، کیوں کہ ان میں پہلے ہی قوّتِ مدافعت انتہائی کم زور ہوچُکی ہوتی ہے۔ سرطان کے ایسے مریض جو ذیل میں درج کسی گروپ میں شامل ہیں،اُنہیں بالخصوص بہت زیادہ احتیاط برتنی چاہیے اور مسلسل اپنے معالج سے رابطے میں رہنا چاہیے، تاکہ کورونا وائرس کے سبب ہونے والی پیچیدگیوں سے محفوظ رہ سکیں۔

کینسر ریسرچ یوکے کی تحقیق کے مطابق اس گروپ میں کیموتھراپی، ریڈیو اور ایمیونو تھراپیز یا دیگر continuing antibody علاج کروانے والے، خون یا بون میرو کے کینسر میں مبتلا مریض، جو علاج کے کسی بھی مرحلے پر ہوں، سرطان کے ایسے طریق علاج اختیار کرنے والے، جن سے اُن کی قوّتِ مدافعت کم زور ہو، مثلاً Protein Kinase Inhibitors یا پی اے آر پی ان ہیبیٹرز (PARP inhibitors)، جن کا گزشتہ چھے ماہ میں بون میرو یا اسٹیم سیل ٹرانس پلانٹ ہوا ہو، یا وہ ابھی تک immunosuppression ادویہ استعمال کر رہے ہوں، شامل ہیں۔

اگر کوئی مریض ان میں سے کسی گروپ میں شامل نہیں، تو بھی کورونا وائرس سے بچاؤ کی عمومی احتیاط تدابیر لازماً اختیار کی جائیں۔جیسے ہاتھ دھونا، ماسک پہننا، دوسروں کے ساتھ فاصلہ رکھنا، ہجوم میں جانے سے گریز کرنا وغیرہ۔ اِسی طرح وہ افراد جو ماضی میں سرطان کا شکار رہے، مگر اب تن درست زندگی گزار رہے ہیں، انہیں بھی ان تمام احتیاطی تدابیر کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اس لیے کہ کینسر کے علاج سے مدافعتی نظام کافی حد تک کم زور ہوجاتا ہے اور اسے مضبوط اور توانا ہونے کے لیے بہرحال کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ بعض ماہرین کے خیال میں ماضی میں اگر کسی کو سرطان کا مرض لاحق رہا ہو، تو ضروری نہیں کہ علاج مکمل ہونے کے بعد اس کا شمار کم زور افراد کے گروپ میں کیا جائے۔ تاہم، بہتر یہی ہے کہ سرطان سے صحت یاب ہونے والے بھی عام افراد کی طرح عمومی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

تشخیص و علاج:چوں کہ سرطان کی اقسام مختلف ہیں، اِس لیے تشخیص کے طریقے بھی جُدا ہیں۔مثلاً اینڈو اسکوپی، میموگرام،الٹرا سائونڈ ، سی ٹی اسکین، ایکس رے اور سی بی سی ٹیسٹ وغیرہ ۔تاہم، حتمی تشخیص کے لیے بائیوآپسی ہی کی جاتی ہے۔ اس طریقۂ کار میںمتاثرہ جگہ کو سُن کرکے چھوٹا سا ٹشونکال کر مائیکرو اسکوپ کے ذریعےجانچا جاتا ہے کہ آیا سرطان ہے بھی یا نہیں۔اس سے اگلے مرحلے میں "Staging"کی جاتی ہے،جس میں ٹیومر کے حجم اور اس کے پھیلاؤ کی جانچ ہوتی ہے۔Stagingکرتے ہوئے مریض کی عمومی صحت، آپریشن کے لیے اس کی سکت اور طاقت کا جائزہ لیا جاتا ہے، جس کے بعد علاج کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ 

عام طور پر سرطان کے علاج کے لیے سرجری، کیمو تھراپی، ریڈی ایشن تھراپی(شعاؤں کے ذریعے)جیسے طریقے مستعمل ہیں۔ اگر ٹیومر حجم میں چھوٹا اور پورے جسم میں پھیلا نہ بھی ہو، تو سرجری کی جاتی ہے۔ سرجری کے ذریعے مرض ختم ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور مریض عام افراد کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔ اگر سرطان جسم میں پھیل چُکا ہو اور سرجری کے ذریعے علاج ممکن نہ ہو، تو پھر کیمو تھراپی تجویز کی جاتی ہے۔ جس میں دوا اور انجیکشن دونوں ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔اس تھراپی کا ایک کورس ہے، جو مناسب وقفوں سے مکمل کروایا جاتا ہے۔ 

اگرچہ کیمو تھراپی کے سائیڈ ایفیکٹس بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً بالوں کا گرنا، خون کے خلیوں میں کمی اور انفیکشن وغیرہ، اس کے باوجود اس طریقِ علاج کو اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ اس موقعے پر اصل مقصد مریض کی جان بچانا ہے۔تیسرا طریقۂ علاج ریڈی ایشن تھراپی ہے، جس میں شعاؤں کے ذریعے سرطان کے سیلز کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔

یاد رکھیے، سرطان کی تشخیص جس قدر جلد ہو گی،علاج اُسی قدر کام یاب ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ بُری علّتوں جیسے پان، چھالیا، گٹکے، تمباکو اور الکحل کے استعمال سے اجتناب برت کر بھی خود کو اس موذی بیماری سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ 

یاد رکھیے، سرطان لاحق ہونے کے نتیجے میں نہ صرف مریض، بلکہ پورے خاندان کو تکلیف دہ حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ سرطان کی چاہے جو بھی قسم ہو، اس کا علاج انتہائی منہگا ہے،جس کے اخراجات برداشت کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ نتیجتاً بعض اوقات مریض علاج ادھورا چھوڑ دیتے ہیں اور یہ امر جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔سو، صحت بخش طرزِ زندگی اپنانے کے ساتھ حتی الامکان متوازن غذا کا استعمال کیا جائے، تاکہ سرطان کے امکانات کم سے کم کیے جاسکیں۔

(مضمون نگار،معروف انکولوجسٹ، انسٹی ٹیوٹ آف نیو کلیئر میڈیسن اینڈ انکولوجی (انمول) کے بانی، ڈائریکٹر اورپاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے بانی صدر ہیں)

تازہ ترین