• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اقبالِ جرم‘‘ جب قلم اٹھایا تو ایک شدید اُلجھن میں گرفتار ہوگیا

قدرت اللہ شہاب

9 جون 1938ء سے میں نے باقاعدہ ایک ڈائری رکھنے کی طرح ڈالی۔ یہ روایتی روزنامچہ کی صورت میں نہ تھی بلکہ میں نے اپنے ایک خودساختہ شارٹ ہینڈ میں ہر اس واقعہ یا احوال کو نوٹ کرنا شروع کردیا جو میرے نزدیک کسی خاص اثر یا اہمیت کے حامل تھے۔ رفتہ رفتہ یہ میری عادت ثانیہ بن گئی۔

ایک روز میں نے اپنے ان کاغذات کا پلندہ ابن انشاء کو دکھایا، تو وہ بہت ہنسا۔ میری مختصر نویسی میں درج کی ہوئی کوئی بات تو اس کے پلے نہ پڑی لیکن یہ ضرور پوچھا کہ 9جون کی تاریخ سے یہ ڈائری شروع کرنے میں کیا راز ہے۔ اس وقت تو میں نے اسے کچھ نہ بتایا۔ البتہ جوصاحب اس کتاب کا آخری بات ”چھوٹا منہ بڑی بات“ پڑھنے کا بوجھ برداشت کرلیں گے، ان پر اس تاریخ کی حقیقت ازخود منکشف ہوجائے گی۔

کچھ عرصہ بعد ابن انشاء ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہوکر علاج کی غرض سے لندن چلاگیا۔ اس کی وفات سے دو ڈھائی ماہ قبل میںاسے ملنے لندن گیا۔ یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ ایک روز اچانک ابن انشاء نے کسی قدر مزاحیہ انداز میں اپنی زندگی کا جائزہ لینا شروع کردیا اور پھر سنجیدہ ہوکر کہنے لگا کہ اگر کسی ترکیب سے اسے دوبارہ دنیاوی زندگی مل جائے تو اسے وہ کس طرح گزارنا چاہے گا۔ اس کی تشنہ تکمیل تمناؤں، آرزوؤں اور امنگوں کی تفصیل اتنی طویل تھی کہ اسے سناتے آدھی رات بیت گئی۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ اگر تمہیں دوبارہ زندگی نصیب ہو تو اسے کس طرح بسر کرنا چاہوگے؟

میں نے مختصراً جواب دیا کہ بہت سی کج فہمیوں، کمزوریوں، خطاکاریوں اور غفلتوں کی اصلاح کرکے میں دوسری زندگی بھی مجموعی طور پر ویسے ہی گزارنا چاہوں گا جیسے کہ موجودہ زندگی گزار رہا ہوں۔یہ سن کر ابن انشاء چوکنا ہوگیا اور کاغذ پنسل ہاتھ میں لے کرا سکول ماسٹر کی طرح حکم دیا ، ”وجوہات بیان کرو، تفصیل سے۔“

میں خود احتسابی کی کدال سے اپنا اندر اور باہر کرید کرید کر بولتا رہا اور ابن انشاء ایس ایچ او کی طرح ایف آئی آر کے طور پر میرا بیان لکھتا رہا۔ اس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی فہرست یہ تھی۔دین کے بارے میں میں کبھی شک و شبہ یا تذبذب میں گرفتار نہیں ہوا۔ دین کے متعلق میرا علم محدود اور عمل محدود تر ہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنی بے نیازی سے مجھے اسلام کی بعض جھلکیوں کی نعمت سے محروم نہیں رکھا۔ایک دور افتادہ، پس ماندہ اور سادہ ماحول سے نکل کر میں نے اپنے زمانے کی سب سے بڑی سول سروس کے مقابلے کے امتحان میں حصہ لیا اور اللہ نے مجھے کامیابی عطا فرمائی۔ سروس کے دوران میں نے کبھی اپنی پوسٹنگ یا ٹرانسفر کے لئے کسی قسم کی کوشش، سفارش یا خوشامد سے کام نہیں لیا۔ اس کے باوجود اچھے سے اچھا عہدہ نصیب ہوتا رہا۔

ملازمت کے دوران میں نے دانستہ طور پر کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ اپنی جائز تنخواہ کےعلاوہ میں نے کبھی کسی حکومت سے مالی یا زرعی راضی یا پلاٹ وغیرہ کی شکل میں کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ایک بار سربراہ مملکت نے مجھے آٹھ مربع زمین کا انعام دینے کی پیشکش کی۔ جب میں نے اسے قبول نہیں کیا تو انہوں نے کسی قدر ناراضگی سے اس کی وجہ پوچھی۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ انسان کو انجام کار دو ڈھائی گز زمین کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہر کس و ناکس کو کہیں نہ کہیں مل ہی جاتی ہے۔ملازمت کے دوران میں نے اپنا کام ایمانداری اور بے خوفی سے کیا۔ 

اس کی پاداش میں چار بار استعفیٰ دینے کی نوبت آئی۔ چوتھی بار بعد از خرابی بسیار منظور تو ہوگیا لیکن میری پنشن اور پراویڈنٹ فنڈ غالباً سزا کے طور پر تین برس تک رکے رہے۔ مجھے یہ تسلی ہےکہ مرزا اسد اللہ خان غالب جیسی ہستی کے ساتھ میری بس یہی قدر مشترک ہے کہ دونوں کو اپنی اپنی پنشن کے حصول میں یکساں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ تین برس خاصی تنگدستی کا زمانہ تھا۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ کسی انسان کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی نوبت نہیں آئی۔

میں خود کسی کا دشمن نہیں ہوں، اور نہ ہی کسی اور کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں۔ پہلی بات تو یقینی ہے، دوسری تخمینی۔ دوسروں کے دل کا احوال تو فقط اللہ ہی جانتا ہے۔ انسانوں کے درمیان باہمی تعلقات میں وقتاً فوقتاً رنجشیں، کدورتیں، نفرتیں اور تنازعے پیدا ہونا فطری امر ہے، میں ان کمزوریوں سے ہر گز مبرا نہیں۔ لیکن میں نے رنجشوں، کدورتوں اور تنازعوں کو ہمیشہ عارضی اور دوستیوں اور محبتوں کو ہمیشہ دائمی سمجھا ہے۔

میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ کسی کی پیٹھ پیچھے وہی بات کہی جائے جو اس کے منہ پر دہرائی جاسکے۔ اس اصول کو پوری طرح نبھا تو نہیں سکا، لیکن کسی حد تک اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب ہوتی رہی ہے۔

میں نے اپنے خلاف تنقید یا الزام تراشی کا برداشت کرنا سیکھا ہے اور اس کے جواب میں‌تضحیک یا تردید کرنے سے گریز کیا ہے۔ البتہ بجا یا بے جا تعریف سن کر دل خوش ہوجایا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کمزوری پر قابو پانے کی کوشش جاری رکھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب بندہ کے لئے مدح و ذم دونوں یکساں ہیں۔میں کبھی Frustrate یا بور نہیں ہوا۔

تنہائی کے احساس نے مجھے نہیں ستایا۔ میں اکیلے میں زیادہ خوش رہتا ہوں۔ خوش قسمتی سے مجھے ایسے دوستوں کی رفاقت نصیب ہوئی، جن کا اپنا اپنا رنگ اور اپنی شخصیت ہے۔ مثلاً ابن انشاء، ممتاز مفتی، بانو قدسیہ، اشفاق احمد، واصف علی واصف صاحب، جمیل الدین عالی، ریاض انور، ایثار داعی، مسعود کھدر پوش، ابن الحسن برنی، اعجاز بٹالوی، ایوب بخش وغیرہ۔ یہ سب اپنے اپنے میدان کے منفرد شہسوار ہیں۔ باہمی محبت، خلوص، احترام اور اعتماد کے علاوہ ہمارے درمیان اور کوئی خاص قدر مشترک یا مقصدیت نہیں۔ اس کے باوجود ہر زمانے میں ہمارے تعلقات میں نہ کوئی کجی آئی ہے اور نہ کوئی کمی پیدا ہوئی ہے۔

خاص طور پر ممتاز مفتی انتہائی ذکی الحس، ضدی، بے باک اور شدت اور حدت پسند تخلیق کار ہیں۔ کسی وجہ سے میری کوئی حرکت انہیں پسند آگئی اور انہوں نے بیٹھے بٹھائے ایسی عقیدت کا روگ پال لیا کہ میرے چہرے پر مشک کافور سے مہکتی ہوئی حنائی داڑھی چسپاں کرکے، میرے سر پر دستار فضیلت باندھی اور سبز پوشوں کا پراسرار جامہ پہنا کر اپنی سدا بہار تحریروں کے دوش پر مجھے ایسی مسند پر لا بٹھایا، جس کا میں اہل تھا نہ خواہش مند۔ اس عمل سے ان کو تو کوئی فائدہ نہ پہنچا البتہ میرے لئے وہ ایک طرح کے مرشد کا کام دے گئے۔ ان کی وجہ سے میں صراط مستقیم پر ثابت رہنے پر اور بھی زیادہ مستعد ہوگیا تا کہ ممتاز مفتی کی عقیدت کے آبگینوں کو ٹھیس نہ لگے۔ بظاہر میرا نفس توبہت پھولا، لیکن اندر ہی اندر عرق ندامت میں غوطے کھاتا رہا۔ کیونکہ من آنم کہ من دانم۔

میں نے دنیا بھر کے درجنوں سربراہان مملکت، وزرائے اعظم اور بادشاہوں کو کئی کئی مرتبہ کافی قریب سے دیکھا ہے لیکن میں کسی سے مرعوب نہیں ہوا اور نہ ہی کسی میں مجھے اس عظمت کا نشان نظر آیا جو جھنگ شہر میں شہید روڈ کے فٹ پاتھ پر پھٹے پرانے جوتے گانٹھنے والے موچی میں دکھائی دیا تھا۔

اس طرح کی زندگی کے علاوہ مجھے اور کیا چاہیئے؟ اب تو بس یہی جی چاہتا ہے

ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی

اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی

ابن انشاء نے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی یہ فہرست میرے حوالے کی، اور وصیت کی کہ اپنی ڈائری کی خفیہ نویسی کو بے نقاب کرو اور دلجمعی سے ایک کتاب لکھو۔ میں تو اسے پڑھنے کے لئے زندہ نہیں رہوں گا لیکن میری روح خوش ہوگی۔

حامی تو میں نے بھر لی، لیکن جب قلم اٹھایا تو ایک شدید الجھن میں گرفتا ر ہوگیا۔ مجھے احساس تھا کہ میںنے زندگی بھر کوئی ایسا تیر نہیں مارا جس پر شیخیاں بگھار کر اور اپنے منہ میاں مٹھو بن کر ادب کے میدان میں ایک برخود غلط تیس مار خان بننے کی کوشش کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا لکھوں؟ ——- کیسے لکھوں؟ ——— اور کیوں لکھوں؟ اسی شش وپنج میںکئی برس گزر گئے۔ رفتہ رفتہ میرے دماغ کی تاریک سرنگ میں روشنی کے کچھ آثار نمودار ہونا شروع ہوئے اور فیصلہ کیا کہ جن واقعات، مشاہدات اور تجربات نے مجھے متاثر کیا ہے ان کی روئیداد بے کم و کاست بیان کردوں۔ (شہاب نامہ سے اقتباس)

تازہ ترین