• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا دنیا اور انسانیت کے لئے تباہی لیکن سونامی سرکار کے لئے غنیمت ثابت ہوا۔سونامی سرکار میں پہلے سے معیشت کا ستیا ناس ہوچکا تھا لیکن کورونا کو اب حکومت ایک عذر کے طور پر پیش کررہی ہے ۔

اسی طرح کورونا کی وجہ سے سفارتی بلنڈرز اور ناکامیوں سے بھی توجہ ہٹی رہی ۔ جس وقت کورونا، سونامی سرکار کے دو چہیتوں کی وجہ سے پاکستان میں داخل ہورہا تھا،اس وقت تبدیلی لانے والوں اور تبدیلی سرکار کے معاملات کافی حد تک خراب ہوچکے تھے لیکن کورونا کی وجہ سے اس وقت شکوے شکایات پس پشت ڈال دئیے گئے ۔

دوسری طرف سونامی سرکار نے کورونا کی وبا کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں کسی ایس اوپی پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوا اور نہ حقیقی معنوں میں لاک ڈائون کیا گیا ۔

ابتدا میں مذہبی طبقات تک نے پورا تعاون کیا اور گزشتہ رمضان کے دوران مساجد کو تالے لگانے پر آمادہ ہوئے لیکن خود حکومت نے طبی ماہرین کے مشورے کے برعکس لاک ڈائون توڑ کرا سمارٹ لاک ڈائون کی اصطلاح ایجاد کی ، حالانکہ یہ بھونڈے مذاق کے سوا کچھ نہیں تھا۔ پھر ایس اوپیز پر عمل درآمد کے لئے ٹائیگرفورس کا ڈرامہ رچایا گیا ۔

شروع میں سونامی سرکار نے خود پر سے توجہ ہٹانے کے لئے کورونا کی آڑ میں سندھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور پھر پاکستانیوں کے کم متاثر ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ کر ناکامی کو الٹا اپنی کامیابی باور کرادیا ۔

حالانکہ زمینی حقائق بتارہے ہیں کہ پاکستان کورونا کیسز اور اموات دونوں لحاظ سے دنیا کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں رہا ۔یقین نہ آئے تو درج ذیل حقائق ملاحظہ کیجئے۔

کورونا سے سب سے زیادہ امریکہ میں 2کروڑ ساٹھ لاکھ افراد متاثر ہوئے ۔انڈیا میں ایک کروڑ سات لاکھ،برازیل میں 91لاکھ، روس میں 38 لاکھ،برطانیہ میں38لاکھ،فرانس میں32لاکھ، اسپین میں27 لاکھ، اٹلی میں25لاکھ ، ترکی میں24 لاکھ، جرمنی میں22 لاکھ، کولمبیا میں20 لاکھ،ارجنٹینا میں19 لاکھ، میکسیکو میں18لاکھ، پولینڈ میں15لاکھ،جنوبی افریقہ میں14 لاکھ، یوکرائن میں12لاکھ جبکہ پاکستان میں ساڑھے پانچ لاکھ لوگ کورونا کے شکار ہوئے ۔

ہلاکتوں کے لحاظ سے بھی امریکہ سرفہرست ہے ،وہاں پر 4لاکھ سے زیادہ ، برازیل میں دو لاکھ، میکسیکو میں ایک لاکھ 55 ہزار، انڈیا میں ایک لاکھ 54 ہزار، برطانیہ میں ایک لاکھ 3ہزار، اٹلی میں 87ہزار، فرانس میں 74 ہزار ، روس میں 71 ہزار ،ا سپین میں 87 ہزار ، ایران میں 57 ہزار ، جرمنی میں 55 ہزار جبکہ پاکستان میں 12ہزار(واضح رہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق) لوگ کورونا سے جان کی بازی ہار گئے۔

یوں ان اعداد وشمار کی رو سے بھی پازیٹو کیسز اور ہلاکتوں میں پاکستان کا دنیا میں نمبر تیسواںہے جبکہ دنیا کے دو سو ممالک میں پاکستان سے صورت حال بہتر رہی ۔

خود چین جہاں سے اس وائرس کا آغاز ہوا تھا اور جس کی آبادی پاکستان سے کئی گنا زیادہ یعنی اربوں میں ہے ، وہاں پاکستان سے بارہ گنا کم یعنی مجموعی طور پر 99746لوگ متاثر ہوئے اور صرف 4813 افراد ہلاک ہوئے جبکہ پاکستان میں چین سے تین گنا زیادہ ہلاکتیں ہوئیں ۔

اب حقیقت یہ ہے اور کورونا سے ڈیل کرنے والے درجنوں ڈاکٹرز اس رائے کا بار بار اظہار کرچکے ہیں کہ عملاً پازیٹو کیسز بھی سرکاری اعدادوشمار سے کئی گنا زیادہ ہیں اور ہلاکتیں بھی ۔

ایک تو بڑے شہروں کے علاوہ دیہات اور چھوٹے شہروں میں ٹیسٹنگ کی سہولت دستیاب نہیں ۔ دوسرا غریب لوگ جنہیں دو وقت کی روٹی مشکل سے ملتی ہے، آٹھ ہزار روپے کا ٹیسٹ کیوں اور کیسے کروائیں؟ تیسرا کئی لوگ کورونا کو سرے سے حقیقت ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں ۔ میں ذاتی طور پر کئی کیسز سے واقف ہوں کہ بندہ اصلاً کورونا سے مر گیا لیکن وہ بظاہر جس بیماری سے مرا، اسے اس کھاتے میں ڈالا گیا۔

مالاکنڈ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے کے پی اسمبلی کے رکن اور سابق وزیر صحت عنایت اللہ نے مجھے بتایا کہ اس سال ، گزشتہ سال کے مقابلے میں وہ چار گنا زیادہ جنازوں میں شرکت کررہے ہیں ۔ اسی طرح ندیم افضل چن نے بتایا کہ ان کے حلقے میں امسال اموات اور جنازے پچھلے سال کے مقابلے میں چار پانچ گنا زیادہ ہیں ۔

بہ ہر حال جیسا تھا، کورونا کا ایک سال گزر گیا ۔ اب دنیا ویکسی نیشن کے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ چین کے اندر ویکسین دسمبر میں لگنا شروع ہوئی جبکہ یہی چینی ویکسین متحدہ عرب امارات ابھی تک لاکھوں شہریوں کو لگا چکا ۔ ہمارے ہاں بے حسی کا یہ عالم ہے کہ آج تک حکومت پاکستان نے کورونا ویکسین خریدنے کے لئے کوئی آرڈرہی نہیں دیا۔

جو پانچ لاکھ خوراکیں چین سے پہنچ گئیں اور جس کا اسد عمر ایک طرف تو شاہ محمودقریشی دوسری طرف ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، چین کی حکومت نے تحفتاً یا بطور خیرات دی ہیں لیکن قیمت ادا کرکے ہم نے چینی کمپنی کو مزید کوئی آرڈر نہیں دیا۔ دوسری خوشخبری آکسفورڈ کی آسٹرازینیکا ویکسین کے ایک کروڑ ستر لاکھ ڈوزز کی سنائی گئی لیکن یہ بھی خیرات ہے جو کوویکس (COVAX) کی طرف سے ملے گی لیکن ابھی یہ معلوم نہیں کہ وہ کب ملے گی؟ جبکہ ہماری حکومت ویکسین خریدنے کی بجائے ممبران پارلیمنٹ کو پچاس پچاس کروڑ روپے سیاسی رشو ت کے طور پر دے رہی ہے ۔

اب صورت حال یہ ہے کہ چین کی خیراتی ویکسین کے ساتھ اگر کوویکس کی ویکسین بھی پہنچ جائے تو یہ ٹوٹل ایک کروڑ 75 لاکھ ڈوززبن جائیں گی اور چونکہ ایک بندے کو دو مرتبہ لینی ہو گی اسلئے عملاً یہ 87لاکھ پاکستانیوں کیلئے کافی ہوگی۔ اب سوال یہ ہے کہ باقی اکیس کروڑ پاکستانیوں کا کیا ہوگا؟ کیونکہ ماہرین کہتے ہیں کہ ستر فی صد آبادی کو ویکسین لگ جانے سے قبل کورونا پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔

ایک تجویز :موجودہ حکومت کبھی بھی اپنے وسائل سے تمام شہریوں کو ویکسین مہیا نہیں کرسکتی ۔ یہ پاکستان کیلئے افسوس کا مقام ہوگا کہ اردگرد کے ممالک ویکسی نیشن کے ذریعے کورونا سے پاک ہوجائیں اور پاکستان میں لوگ اس سے لڑتے اور مرتے رہیں ۔

اس لئےگزارش ہے کہ پاکستان کے صاحبِ ثروت افراد آگے بڑھیں ۔ جاوید آفریدی کی تجویز کے مطابق وہ، ملک ریاض ، میاں منشا، عقیل کریم ڈیڈھی اور اسی طرح کے ارب پتیوں کو ایک خصوصی ویکسین فنڈ قائم کرنا چاہئے ۔

اس فنڈز سے ویکسین خرید کر ہر پاکستانی تک اس کی رسائی کو یقینی بنانا چاہئے ۔اگر بل گیٹس پوری دنیا میں یہ نیک کام کرسکتا ہے تو پاکستانی مخیر حضرات اپنے ملک کے شہریوں کی زندگیاں بچانے اور کاروبار بحال کرنے کیلئے ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟

تازہ ترین