• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

K2، علی سدپارہ اور 2 غیر ملکی کوہ پیما لاپتہ، سرچ آپریشن


اسلام آباد(اے ایف پی، جنگ نیوز) دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو سردیوں میں فتح کرنے کی کوشش کرنے والے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ سمیت تین کوہ پیما لاپتہ ہوگئے ہیں، یہ بات تینوں کوہ پیمائوں کی مہم کے منیجر اور الپائن کلب آف پاکستان نے بتائی۔

علی سد پارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی سے تعلق رکھنے والے جان پبلو موہر کا جمعہ کے روز سے بیس کیمپ، ٹیم اور اہل خانہ سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے اور ان کی تلاش میں شروع کیے گئے ریسکیو مشن کے دوران آرمی ہیلی کاپٹروں نے 7000 میٹر کی بلندی تک پرواز کی ہے تاہم ابھی تک تینوں کوہ پیمائوں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

سیون سمٹ ٹریکس کے مینیجر داوا شرپا جو کے ٹو بیس کیمپ پر موجود ہیں نے بتایا کہ گزشتہ 30گھنٹوں سے تینوں کوہ پیمائوں کا رابطہ منقطع ہوچکا ہے جبکہ جی پی ایس ٹریکرزنے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ،اپنے ایک اور بیان میں انہوں نے بتایا کہ آرمی کے ہیلی کاپٹر نے تقریباً 7000 میٹر کی بلندی تک پرواز کی اور واپس اسکردو لوٹ گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’بدقسمتی سے انھیں کوئی سراغ نہیں ملا اور پہاڑ حتیٰ کہ بیس کیمپ میں بھی موسم بہت خراب ہو رہا ہے۔ ہم مزید پیشرفت کے منتظر ہیں لیکن موسم اور ہوا چلنے کی اجازت نہیں دے رہے۔‘

الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری کے مطابق آرمی ایوی ایشن کے دو ہیلی کاپٹرز نے ریسکیو آپریشن کا آغاز کیا تھا اور انھوں نے اس سرچ آپریشن میں محمد علی سدپارہ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے آٹھ کوہ پیما اور نیپال کے دو کوہ پیماؤں کے شریک ہونے کی اطلاع دی تھی۔

داوا شرپا نے یہ بھی بتایا کہ علی سد پارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ بحفاظت کیمپ ون میں پہنچ گئے ہیں اور وہ بہت جلد بیس کیمپ کی جانب بڑھیں گے۔انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ساجد سدپارہ کی کسی بھی قسم کی مدد کے لیے انھوں نے اپنی ٹیم کے دو شرپاؤں کو تیار رہنے کا آرڈر دے رکھا ہے۔

واضح رہے کہ ساجد سدپارہ بھی اپنے والد کے ہمراہ کے ٹو سر کرنے کی مہم میں شامل تھے لیکن آکسیجن ریگولیٹر خراب ہونے کے باعث وہ نیچے کیمپ تھری پر آ گئے تھے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق انہیں محمد علی سدپارہ، ان کے ساتھی کو پیما آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جے پی موہر کے قریبی عزیزوں اور ٹیم نے بتایا کہ تینوں نے جمعے کی شام تک آٹھ ہزار میٹر کا سنگ میل عبور کر لیا تھا جس کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ وہ جلد ہی اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے۔

ٹورسٹ پولیس اسکردو کے مطابق ان تینوں کی تلاش کا آپریشن شروع کیا جاچکا ہے اور تمام تر ممکنہ اقدامات کیے جارہے ہیں۔تینوں کوہ پیماؤں کے ساتھ رابطے کے لیے جان سنوری کے پاس موجود ٹریکر کے علاوہ تینوں کے پاس موجود سیٹلائیٹ فون اور واکی ٹاکی کا استعمال کیا جاتا تھا۔

رابطوں کے لیے جان اسنوری اپنے پاس موجود ٹریکر ہر ایک گھنٹے بعد آن کر کے اطلاع فراہم کردیتے تھے۔ انھوں نے جمعہ کے روز آخری مرتبہ اپنی موجودگی کی اطلاع چار بجے فراہم کی تھی۔

محمد علی سد پارہ اور ساجد علی پارہ باپ بیٹا ہیں جن کا تعلق گلگت بلتستان میں سکردو کے علاقے سد پارہ سے ہے۔ سدپارہ کا علاقہ مہم جوؤں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔

محمد علی سد پارہ کو اعزاز حاصل ہے کہ وہ اس ٹیم کا حصہ تھے جنھوں نے 2016 میں سردیوں کی مہم جوئی کے دوران پہلی مرتبہ نانگا پربت کو سر کیا تھا۔

محمد علی سد پارہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے آٹھ ہزار میٹر کی آٹھ چوٹیاں فتح کرنے کے علاوہ ایک سال کے دوران آٹھ ہزار میٹر کی چار چوٹیاں سر کی ہیں۔

ان کے بیٹے ساجد علی سد پارہ کو کے ٹو اور ماوئنٹ ایورسٹ فتح کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ساجد علی سد پارہ نے کوہ پیمائی کی تربیت اپنے والد ہی سے حاصل کی ہے۔جان اسنوری کا تعلق آئس لینڈ سے ہے۔ 

انھیں کے ٹو سمیت دنیا کی دس مختلف چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ جس میں دنیا کی دشوار گزار چوٹیاں بھی شامل ہیں۔جے پی موپر کا تعلق چلی سے ہے اور وہ بھی ایک کہنہ مشق مہم جو سمجھے جاتے ہیں۔

تازہ ترین