• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر شارب ردولوی

آج ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں ادب اور اس کے مسائل کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہوگیا ہے۔ آج یہ موضوع ہی ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے یعنی ادب کا آج کے مسائل یا عصری مسائل سے کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ اب تک ادب کے بارے میں دو نقطۂ نظر تھے۔ کچھ لوگ ادب میں فکر اور مسائل پر زور دیتے تھے۔ ان کے یہاں ایک فکری نظام تھا اور اس فکری نظام سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس نظام میں بھی دو پہلو ملیں گے۔ ایک کارشتہ ادبی فکر سے ملتا ہے اور دوسرے کا علمی فکر سے۔ علمی فکر سے مراد فلسفہ، نفسیات، سیاست، عمرانیات اور دوسرے علوم ہیں جس کا اثر ادب پر پڑتا ہے اور اس کے تحت کبھی شعر وادب پر فلسفیانہ فکر گہری ہوگئی کبھی متصوفانہ، کبھی سماجی اور کبھی سیاسی۔

دوسرا نقطۂ نظر ادب کی خود مختار حیثیت کا ہے، جو ادب پر کسی خارجی اثر کو نہیں تسلیم کرتا۔ اس کی نگاہ میں ادب سیاسی، عمرانی، سماجی یا دوسرے اثرات سے یکسر آزاد اور غیر متعلق ہوتا ہے اور اس کے تخلیق عمل میں ان باتوں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ سماجی فکر سے آزاد نقطۂ نظر میں بھی کوئی رویہ تو تھا ہی لیکن اب ادب کی خود مختاری پر اتنا زور دیا گیا کہ معنوی سطح پر اس کا کوئی تعلق نہ اپنے تخلیق کرنے والے سے رہ گیا، نہ متن سے اور نہ قاری سے۔ابھی تک معنی آفرینی کے لئے تخیل آرائی، جذبے، تجربے اور محسوسات کا مطالعہ کیا جاتا تھا اور معنیاتی تہہ داری کی تفہیم کی جاتی تھی۔

ادب میں آج ایسے مسائل ضرور نظر آتے ہیں، جس میںا یک طرح کی لاتعلقی کا احساس ہوتا ہے۔ اس کا ایک سبب یہی ہے کہ ادیب کو اس بات کا یقین دلایاجائے کہ کسی تخلیق کے سپرد قلم کرنے کے بعد اس پر اس کا کوئی حق نہیں اور شاید لکھتے وقت بھی اس کا کوئی حق نہیں تھا۔ ایسی صورت میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ کیا ہے؟ اس کا تعین پڑھنے والا کرے گا، مصنف نہیں ، اس لئے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی معنی متعین کردے اور لفظ کے متعینہ معنی نہیں ہوتے۔ اس لئے معنی کی باگ قرأت کے ہاتھوں میں دے دی گئی۔ تاکہ جس طرح کے معنی کی ضرورت ہو قرأت کے ذریعہ آپ نکال لیں۔ مصنف کو اس بات کا یقین دلایاجارہا ہے کہ وہ کیا لکھ رہا ہے اسے نہیں معلوم۔ 

اس کو تو جو لکھنا تھا اس نے لکھ دیا۔ اس میں رومانیت ہے یا حقیقت پسندی، عصری حسیت ہے یا کوئی زندگی کا تجربہ، کسی کی آپ بیتی ہے یا خیال آرائی۔ کوئی سماجی یا تہذیبی مسئلہ ہے یا کسی سانحے کا تاثر، اس سے اسے کوئی غرض نہیں۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ ساری کوشش مصنف کے شعور کو منجمد کردینے اور اس کی تحریک کو روک دینے کی ہے لیکن اردو میں فضا ابھی اتنی مسموم نہیں ہوئی ہے۔شاعری اور افسانہ دونوں میں ادھر نئے پیکر اور نئی لفظیات کے ذریعہ بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً منظر سلیم کی ایک غزل میں آج کے حالات کس طرح نئے پیکرکے ذریعہ ظاہر ہوتے ہیں ملاحظہ کیجئے:

خوف کے گہرے دھوئیں میں لوگ کیا سے کیا ہوئے

کیسے کیسے دیدہ ور پل بھر میں نابینا ہوئے

ذہن کچھ پتھرا گئے کچھ نے وہ باتیں گڑھیں

جن کو سن کر لفظ پچھتائے کہ کیوں پیدا ہوئے

اور مقطع بڑی خوبصورتی اور بلاغت سے اس زمانے کی فکر اور سیاسی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے:

یک بیک منظر کئی شہروں میں کیسا رن پڑا

زندگی کے ہائے کیا لشکر تھے جو پسپا ہوئے

آج کا اردو ادب فکری جہت یا عصری مسائل کو کئی صورتوں میں پیش کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر عہد کے مسائل ایک ہی طرح کے نہیں ہوتے۔ گذشتہ پچاس سال میں بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے۔ بہت سی ضرورتیں بدل گئی ہیں۔ جدوجہد کے میدان اور لڑائی کے طریقے بدل گئے ہیں۔ اس لئے ادب میں ان کا اظہار بھی اب دوسری طرح ہورہا ہے۔ کہیں دبے دبے احتجاج کی شکل میں، کہیں مجبوری، اداسی اور کرب کی شکل میں۔

آج ادب میں ایک اور مسئلہ نظر آتا ہے اور وہ ہے اپنی تہذیب اور قدروں میں تبدیلی یا دوسری تہذیبوں اور قدروں سے ان کا ٹکراؤ ۔ دنیا آج بہت چھوٹی ہوگئی ہے اور روزی کی تلاش میں لوگ اس طرح بکھر گئے ہیں کہ ایک دوسرے کے درمیان ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ لیکن اس نے ادب میں بے گھری اور اپنی تہذیب ٹوٹنے کا احساس ضرور پیدا کیا ہے اور شاید یہ ہر اس آدمی کا مسئلہ ہے جو کسی دوسرے ملک میں بہتر زندگی کی خواہش میں اپنی زبان، اپنی تہذیب، عزیزوں، دوستوں، گھر اپنے گاؤں اور اپنی مٹی سے دور ہے۔ آج کے ادب میں یہ مسائل کہیں نہ کہیں ضرور نظر آتے ہیں۔ حالات کی اس تبدیلی پر اشفاق حسین کا رد عمل ان اشعار میں دیکھئے:

سکوں ملتا ہے بے آنگن گھروں میں میرے بچے کو

کھلے دالان کی خواہش تو میری نسل ہی تک ہے

میزباں تہذیب کی نیرنگیاں ہیں اور ہم

کھوئی کھوئی سی عجب مجبوریاں ہیں اور ہم

لوٹ کر واپس چلے جانے کی بھی خواہش نہیں

پاؤں سے لپٹی ہوئی مجبوریاں ہیں اور ہم

اس سے اندازہ ہوگا کہ ادب میں عصری شعور یا عصری مسائل کسی نہ کسی صورت میں ضرور ملتے ہیں اور اچھے ادب کی دلکشی کا سبب بھی یہی ہے کہ وہ دلوں کو چھوتا ہے۔ وہ جتنا ہمارے دل اور ہماری زندگی سے قریب ہوکر گزرے گا اتنی ہی زیادہ اس میں اثر آفرینی ہوگی۔ قواعد اور قرأت میں الجھانے کے باوجود ادب انسانی محسوسات اور عصری مسائل سے دور نہیں کیا جاسکتا۔

تازہ ترین