• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کالم غصے سے نہیں لکھا جایا کرتا لیکن یہ مختصر سا کالم میں ذاتی نہیں قومی غصے کے تحت لکھ رہا ہوں۔ لاہور میں جب پنجاب ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا عملہ کسی ہمسائے کے گھر میں کورونا کے مریض کی اطلاع ملنے پر آتا تھا اور اس کے سارے گھر کے ملازمین ہی نہیں، اس کے ہمسائے کے گھر کے ملازمین کا کورونا سیمپل بھی لے جاتا تھا، میں اس اعلیٰ کارکردگی پر بہت حیران ہوتا تھا مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ سیمپل کے رزلٹ کی اطلاع نہیں دی جاتی تھی۔ ادھر ادھر سے پوچھنے پر بتایا گیا کہ اگر آپ کو رپورٹ نہ ملے، اس کا مطلب رزلٹ کا نگیٹو آنا ہے اور بعد میں یہ بات سراسر فراڈ نکلی۔ وہ ٹیسٹ کئے ہی نہیں گئے ہوتے تھے۔

مجھے کورونا ہوا تو میں نے پرائیویٹ لیب سے اپنے ڈرائیور کا ٹیسٹ بھی کروایا اور وہ بھی مرض کا مارا پازیٹیو نکلا، فوراً ہیلتھ ٹیم اس کے گھر پہنچی اور اس کے بیوی بچوں کے سیمپل لے کر چلی گئی۔ یہ ٹیسٹ 2فروری 2021کو ہوئے اور نتائج سے آگاہ کرنے کے لئے عملے کو گھر کا فون نمبر دیا گیا مگر پندرہ دن تک کوئی اطلاع نہ ملی، تو وہ یہی سمجھتے رہے کہ اطلاع نہ ملنے کی وجہ ٹیسٹوں کا ٹھیک ہونا ہی ہو گا مگر حقیقت یہ سامنے آئی کہ میرے ڈرائیور کی بیوی اور اس کے بیٹے کو کورونا ہو گیا ہے۔ میرے ایک بہت عزیز دوست ہیں، میں نے انہیں گزارش کی کہ محکمے کے کسی ذمہ دار شخص کو صورتحال سے آگاہ کریں، آگاہ کرنے پر بتایا گیا کہ چونکہ ڈینگی بھی آیا ہوا ہے اس لئے زیادہ توجہ ڈینگی کی طرف ہے۔ کیا ڈینگی نے پاکستان میں ابھی تک اس کا سوواں کہرام بھی مچایا ہے جو کورونا نے مچایا ہوا ہے؟ چنانچہ اس کی وجہ سے یہ کوتاہی مسلسل ہو رہی ہے۔

اس سے میں نے صرف اندازہ ہی نہیں لگایابلکہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اگر متعلقہ لاہوری عملے کے علاوہ ’’ذمہ داری‘‘ کا ہر جگہ یہی حال ہے تو آپ اس مرض کے شکار افراد کی بتائی گئی تعداد کو ایک سو سے ضرب دے لیں اور اگر یہ سرکاری قومی مجرم اسی طرح دندناتے رہے اور وسیع پیمانے پر تحقیقات اور اس کے نتیجے میں جزا اور سزا کا عمل فوری طور پر شروع نہ کیا گیا تو پھر میرے منہ میں خاک، ہم مغرب میں اس مرض کی خون آشامیاں بھول جائیں گے۔

بخدا میں اس وقت سخت پریشان ہوں اور سوچتا ہوں کہ حکومتوں کے علاوہ ظالم سے ظالم انسان بھی کتنے لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کر سکتا ہے۔ ان قومی مجرموں نے اس شعبے میں سب کو ’’شکست‘‘ دے دی ہے۔ زندہ قومیں مصائب کا مقابلہ اس طرح کیا کرتی ہیں جس طرح ان دنوں اہل مغرب کر رہے ہیں۔ ہم ان کو گالیاں دیتے رہیں گے اور خود ثناء خوانِ تقدیسِ مشرق رہیں گے۔ مجھے لگتا ہے ہم بہت زیادہ برے ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی ایک شعبے میں نہیں جدھر آنکھ اٹھا کر دیکھیں چڑیلیں اور بھوت ہی دکھائی دیتے ہیں۔ انسان گھٹتے اور سائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اللہ جانے اب ہمارے وکیلوں کو کیا ہو گیا ہے؟ اللہ جانے ہمارے ان بیورو کریٹ کو کیا ہو گیا ہے جو مالِ حرام والی پوسٹوں پر جانے کے لئے جان اور مال لٹانا بھی گھاٹے کا سودا نہیں سمجھتے؟ دنیا داروں کو چھوڑیں ہمارے پاکستانی حجازی نما تاجران تک کا پیٹ مزید کتنے تندوروں سے بھر سکتا ہے۔ نہایت حساس اور ذمہ دار سیٹوں پر کام کرنے والوں کے سارے خاندان اپنی جیبوں میں غیرملکی پاسپورٹ لئے پھر رہے ہیں۔ ان کی باہر بھی جائیدادیں ہیں اور پاکستان میں بھی۔ غریب بھوکوں مر رہا ہے۔ اٹھارہ ہزار روپے ماہوار میں کرائے کا مکان اور گھر کا خرچہ چلانے کا کوئی جھوٹا موٹا حل ہی بتا دیں۔ زخم صرف اتنے شعبوں کے نہیں ہیں جو میں نے ابھی گنوائے ہیں بلکہ تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم والی صورتِ حال کی وجہ سے میں یہ داستانِ دلخراش یہیں چھوڑ کر بتانے جا رہا ہوں کہ اگر صورتحال یہی رہی تو پیارا ملک سخت خطرے کا شکار ہو جائے گا۔ یہاں ڈاکے پڑیں گے، بڑے بڑے گھروں پر حملے ہوں گے۔ لوگوں کو ان کی بڑی بڑی کاروں سے اتار کر زچہ بچہ سب کو آگ لگا دی جائے گی اور وہ سب کچھ ہو گا جو لب پہ آ سکتا نہیں، جسے یقین نہ آئے وہ انقلابِ فرانس کی تاریخ پڑھ لے۔

مگر میں اس منحوس تذکرے کو یہیں ’’خیر باد‘‘ کہہ کر پنجاب ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے کورونا شعبے میں جو غیر ذمہ دار افراد بیٹھے ہیں، میں اعلیٰ حکام سے مطالبہ کروں گا کہ ان کی اچھی طرح ’’خیر خبر‘‘ لی جائے۔ ایسے لوگ ملک و قوم کے غدار ہوتے ہیں، ہم پتہ نہیں کسے کسے غدار ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں؟

تازہ ترین