• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان سپر لیگ کا میلہ کراچی میں شروع ہوگیا ۔کیا چھٹے سال کوئی نئی چیمپین ٹیم80ملین روپے اور خوبصورت ٹرافی کی حقدار بنے گی یا کوئی سابق چیمپین ہی یہ ٹورنامنٹ ایک سے زائد بار جیتنے کا اعزاز حاصل کرے گی۔اس بات کا فیصلہ 22مارچ کو قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ہوگا۔اس وقت نیشنل اسٹیڈیم کراچی پہلے مرحلے کے بیس میچوں کی میزبانی کررہا ہے۔

خلاف توقع ملک کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ کا آغاز دھیمے انداز میں ہوا ہے۔پہلے ریکارڈ کی ہوئی افتتاحی تقریب رنگ نہ جماسکی۔ترکی میں ریکارڈ کی گئی اس تقریب کا دورانیہ20 منٹ تھا لیکن یہ تقریب متاثر کرنے میں ناکام رہی۔عاطف اسلم جیسے بڑے گلوکار کو نصیبولال کے علاوہ دکھایا گیا لیکن ماضی کی تقاریب کی طرح اس بار یہ تقریب بدمزہ رہی۔

لیکن کوویڈ کے دوران سخت ایس او پیز میں ٹورنامنٹ شروع ہوگیا۔پہلے دو دن میچوں میں یک طرفہ نتائج آئے لیکن ابھی ٹورنامنٹ میں مزید جان آئے گی۔سب سے حیران کن پہلو تماشائیوں کی عدم دلچسپی رہا۔پی ایس ایل کا حالیہ ایڈیشن بھی مالی اعتبار سے مفید ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پہلے مرحلے میں صرف 20 فیصد کراؤڈ کی اجازت دی گئی ہے، سو ٹکٹوں کی آمدن کا 80 فیصد حصہ تو آغاز سے پہلے ہی خسارے میں شامل ہو چکا۔تماشائی شائد کورونا کے خطرات کی وجہ سے گراونڈ میں آنے سے گریز کررہے ہیں۔پھر پہلے تین میچوں میں نیشنل اسٹیڈیم کی پچ پر ہائی اسکورنگ میچ دیکھنے کو نہیں ملے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس بار سارا ڈومیسٹک سیزن کراچی میں ہوا ہے اس لئے کراچی کی پچ معمول سے زیادہ استعمال کی گئی ہے۔چونکہ یہ سال ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا سال ہے تو ہر کرکٹ بورڈ اپنے شیڈول میں زیادہ سے زیادہ ٹی ٹونٹی مقابلوں کو ترجیح دے رہا ہے۔اگلے سال ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ اور ایشیا کپ ہونا ہے۔ 

ہر بورڈ اپنے شیڈول میں زیادہ ٹی ٹوئینٹی میچ رکھ رہا ہے کرکٹ لیگز کی ذمہ داری بھی یہی ہو گی کہ وہ اپنے اپنے قومی ٹی ٹونٹی سکواڈ کے خلا پر کریں اور ورلڈ کپ ٹائٹل کے لیے بہتر مواقع پیدا کریں۔پاکستانی ٹیم کبھی ٹی ٹونٹی عالمی درجہ بندی کی پہلی ٹیم ہوا کرتی تھی۔لیکن بابر اعظم کی قیادت میں اب پاکستان ٹی ٹوئینٹی ٹیم بہتر ہورہی ہے۔

جنوبی افریقا کے خلاف ہوم سیریز میں بڑی کامیابی سے پاکستان کرکٹ ٹیم کو اعتماد ملا ہوگا۔محمد حفیظ اور شعیب ملک کی عدم موجودگی میں یہ مڈل آرڈر اکثر سہارے ڈھونڈتا نظر آتا ہے۔جنوبی افریقا کی سیریز میں افتخار احمد،خوش دل شاہ،حسین طلعت اور آصف علی ایک بار پھر دھوکا دے گئے۔ ٹی ٹونٹی میچ کے درمیانی اوورز میں بیٹنگ کرنا ون ڈے کے آخری پاور پلے جیسا ہوتا ہے۔ یہ ایک خاص آرٹ ہے اور اس کے لیے چنیدہ قسم کے مشاق کھلاڑی درکار ہوتے ہیں۔لیکن پاکستان کے یہ کھلاڑی زیادہ اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے بلکہ حیدر علی کی اہلیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

پی ایس ایل سکس میں اپنے اعزاز کا دفاع کرنے والی کراچی کنگز کی ٹیم نے سرفراز احمد کی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو پہلے میچ میں شکست دے دی۔کراچی کنگز نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف سات وکٹوں سے کامیابی حاصل کر لی ہے۔کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے کراچی کنگز کو جیتنے کے لیے 122 رنز کا ہدف دیا تھا۔ جو کراچی نے محض تین وکٹوں کے نقصان پر پندرھویں اوور میں حاصل کر لیا۔ کراچی کنگز نے تین وکٹوں کے نقصان پر 13.5 اوورز میں 126 رنز بنائے۔سرفراز احمد کرس گیل کے ساتھ اوپننگ کرنے آئے لیکن بڑی اننگز نہ کھیل سکے۔

ویسٹ انڈین کرس گیل کے علاوہ کوئی بیٹسمین نہ چل سکا۔ویسٹ انڈیز کے کرس گیل ایک بار پھر پاکستان سپر لیگ کا حصہ بنے ہیں۔ اس مرتبہ اُنھیں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے اپنی ٹیم میں شامل کیا ہے۔ وہ کراچی میں پہلے مرحلے کے تین میچوں کے بعد لاہور میں ہونے والے تمام میچوں میں دستیاب ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائی تین میچوں میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز ان کی غیر موجودگی کو جنوبی افریقہ کے فاف ڈوپلیسی سے پورا کرے گی۔کرس گیل ماضی میں دو مرتبہ پاکستان سپر لیگ کھیل چکے ہیں لیکن لاہور قلندرز اور کراچی کنگز کی طرف سے قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔

اس لیے یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے انہیں اپنے سکواڈ میں شامل کر کے گھاٹے کا سودا تو نہیں کیا؟ اور کیا وہ ماضی کی ناکامیوں کا ازالہ کرسکیں گے؟پہلے میچ میں39رنز کی اننگز کھیل کر کرس گیل نے اپنی بیٹنگ کی جھلک دکھادی۔کرس گیل نے 2016 میں کھیلی گئی پہلی پاکستان سپر لیگ میں لاہور قلندرز کی نمائندگی کی تھی لیکن پانچ میچوں میں صرف 103 رنز بنانے میں کامیاب ہو سکے تھے جس میں ایک نصف سنچری شامل تھی۔

کرس گیل نے 2017 میں ہونے والی دوسری پاکستان سپر لیگ میں کراچی کنگز کی نمائندگی کی تھی۔ اس ٹورنامنٹ میں اُنھوں نے نو میچوں میں صرف 160 رنز بنائے تھے جس میں کوئی نصف سنچری شامل نہیں تھی۔کرس گیل تمام ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں سب سے زیادہ 13 ہزار 584 رنز، سب سے زیادہ 22 سنچریاں اور سب سے زیادہ 85 نصف سنچریاں بنانے والے بیٹسمین ہیں۔ 

یہی نہیں، بلکہ ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں سب سے زیادہ 1041 چوکے اور 1001 چھکے لگانے کا عالمی ریکارڈ بھی کرس گیل کے نام ہے۔کرس گیل نے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں 175 رنز کی سب سے بڑی انفرادی اننگز بھی کھیل رکھی ہے اس اننگز میں اُنھوں نے صرف 30 گیندوں پر ٹی ٹوئنٹی کی تیز ترین سنچری مکمل کی تھی۔ایک ٹی ٹوئنٹی اننگز میں سب سے زیادہ 18 چھکوں کا عالمی ریکارڈ بھی کرس گیل کے زورِ بازو کا نتیجہ ہے۔

کرس گیل نے پاکستان سپر لیگ کے علاوہ جنوبی افریقی ٹی ٹوئنٹی لیگ میں بھی دو سیزن کسی سنچری کے بغیر کھیلے ہیں لیکن دیگر فرنچائز لیگز میں وہ سر چڑھتا طوفان ثابت ہوئے ہیں۔کرس گیل نے آئی پی ایل میں کنگز الیون پنجاب، کولکتہ نائٹ رائیڈرز، اور رائل چیلنجرز بنگلور کی طرف سے کھیلتے ہوئے مجموعی طور پر چھ سنچریاں سکور کی ہیں۔

گیل نے بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں پانچ اور کیریبئن لیگ میں چار سنچریاں سکور کی ہیں جبکہ بگ بیش اور انگلینڈ کے ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ میں وہ ایک ایک سنچری بنا چکے ہیں۔کرس گیل سمیت دنیا کے کئی کھلاڑی اس سال پی ایس ایل کا حصہ ہیں۔اکستان سپر لیگ کے چھٹے ایڈیشن میں افغانستان کے پانچ کرکٹرز کی موجودگی کو بہت زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں افغانستان کے صرف ایک کرکٹر محمد نبی ہی پاکستان سپر لیگ کھیل پائے تھے۔

اگرچہ افغانستان کے یہ پانچوں کرکٹرز پاکستان سپر لیگ کے تمام میچوں کے لیے دستیاب نہیں ہوں گے لیکن چونکہ یہ کرکٹرز اس وقت ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لہذا شائقین بے صبری سے انھیں ایکشن میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ان کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز راشد خان ہیں جو عصرحاضر کے بہترین لیگ سپنر کے طور پر اپنی دھاک بٹھا چکے ہیں۔

راشد خان نے زندگی کا کچھ حصہ پاکستان کے شمالی شہر پشاور میں بھی گزارا ہے۔راشد خان نے لاہور قلندرز کی پشاور زلمی کے خلاف چار وکٹوں کی فتح میں کردار ادا کیا۔لاہور قلندرز کو پشاور زلمی کے خلاف جیت کے لیے 141 رنز کا ہدف ملا۔لاہور قلندرز نے چھ وکٹوں پر 141 رنز کا ہدف حاصل کر لیا۔ محمد حفیظ نے ذمہ دارانہ پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے 26 گیندوں پر 33 رنز بنائے اور ناٹ آؤٹ رہے جبکہ راشد خان نے 27 رنز بنائے۔

اسلام آباد یونائیٹڈ نے ملتان سلطانز کو تین وکٹوں سے شکست دے دی۔20 اوورز میں آٹھ وکٹ کے نقصان پر ملتان سلطانز نے 150 رنز بنائے جبکہ یہ ہدف اسلام آباد یونائیٹڈ نے سات وکٹ کے نقصان پر آخری اوور کے آغاز میں ہی حاصل کر لیا۔

محمد رضوان نے پی ایس ایل کے اس سیزن کی اپنی پہلی نصف سنچریبھی کی مگر ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار نہ کرا سکے۔ خاص بات یہ ہے کہ گذشتہ سال ملتان سلطانز کی قیادت کرنے والے شان مسعود آج بینچ پر بیٹھے ہیں۔ گذشتہ سال رضوان کو کراچی اپنی الیون میں شامل نہیں کررہا تھا اس سال وہ کپتانی کررہے ہیں پشاور زلمی کے کپتان وہاب ریاض اور ہیڈ کوچ ڈیر ن سیمی پر کورون ایس او پیز کی خلاف ورزی پر تین دن کی پابندی اور اچانک اپیل کی منظور کے بعد ٹیم میں آکر میچ کھیلنا بہت سارے سوالات کو جنم دیتا ہے۔لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ سب اچھا ہے کی نوید سنا رہا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین