اسلام آباد (طارق بٹ) سینیٹ انتخابات کے طریقۂ کار پر صدارتی ریفرنس کے بارے میں سپریم کورٹ کے مؤقف نے الیکشن کمیشن کے اختیارات کی توثیق کر دی ہے۔ سینیٹ انتخابات خفیہ بیلٹ سے کرانے کے فیصلے کے بعد آئینی ماہرین کے مطابق صدارتی آرڈیننس باقی نہیں رہا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم سے ظاہر ہے کہ آئین اور قانون کے تحت الیکشن کمیشن انتخابی عمل کو منصفانہ اور شفاف بنانے کا پابند ہے۔ جس کے لئے عدالت عظمیٰ نے آئین کے آرٹیکلز 218(3)، اور 222 کے حوالے دیئے۔ جن میں انتخابی ادارے کے فرائض، ذمہ داریوں اور اختیارات کی وضاحت کی گئی ہے۔ عدالتی حکم میں بیلٹ کی رازداری کے بارے میں 1967ء کے کیس کا حوالہ بھی دیا گیا۔ پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے 1967ء کے فیصلے پر رائے کا دارومدار اس بات پر ہے جب ملک میں 1962ء کا آئین نافذ تھا۔ اس وقت انتخابی قانون (الیکٹورل کالج ایکٹ 1964ء) مختلف تھا۔ اس کیس کے حوالے سے ریفرنس نے اُلجھن پیدا کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1967ء میں فیصلے کے حوالے سے آج کا مؤقف غیرمتعلق ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ نے عبوری حکم نامے کو غیرقانونی قرار دیا لیکن بیلٹ کی اجازت دی کیونکہ اس میں اُمیدوار کا کوئی تصور نہیں ہے۔ پھر یہ کیس ریفرنس سے کس طرح متعلق ہو جاتا ہے؟ معروف قانون دان سلمان اکرم راجا نے کہا کہ بیلٹ کے خفیہ ہونے کے حوالے سے عدالت کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا۔ تاہم آئین کو بالادست رکھنے پر ہم سپریم کورٹ کے شکرگزار ہیں۔ سائوتھ ایشیا انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کی قانونی مشیر ریما عمر نے کہا کہ خفیہ رائے شماری پر صدارتی آرڈیننس عدالت کی ایڈوائس سے مشروط تھا۔ انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کے ذریعہ انتخابی اصلاحات کے لئے حکومت نے دُرست اقدام کیا۔ تاہم بعدازاں آرڈیننس کے ذریعہ انتخابی ایکٹ 2017ء کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے احمد بلال محبوب اور ریما عمر کے نقطۂ نظر مختلف ہیں۔