• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلم، موسیقی اور فن و فنکار کیلئے ایک عرصہ بعد بہترین سال

بہار کا موسم آتے ہی پاکستان میں ثقافتی سرگرمیاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔ میوزیکل پروگرام، فیشن شوز، فلموں کے پریمئر، فلم فیسٹیولز، ایوارڈ شو اور دیگر تقاریب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ 2022ء کی بات کریں تو نہ صرف پاکستان کی فلمی صنعت نے کئی باکس آفس ہٹ دیں بلکہ ڈراموں نے بھی خوب پذیرائی حاصل کی۔ موسیقی میں بھی کئی گانے ایسے تھے، جنھوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی مقبولیت کی حدوں کو چھوا۔ یوں یہ سال پاکستان شوبز انڈسٹری کے لیے نہایت کامیاب رہا۔ 

اردو، پنجابی اور پشتو زبانوں میں چھوٹے اور بڑے بجٹ کی فلمیں ریلیز کی گئیں، جن میں عشرت میڈ اِن چائنا، گھبرانا نہیں ہے، پردے میں رہنے دو اور دی لیجنڈ آف مولاجٹ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ مجموعی طور پر فلمی صنعت نے باکس آفس پر اچھا بزنس کیا۔ ٹی وی پر دل آویز، چوھدری اینڈ سنز، مشکل، انتقام، بدذات، دل زار زار، اے مشت خاک اور دل مومن جیسے ڈراموں نے لوگوں کو محظوظ کیا۔ اس کے علاوہ موسیقی میں پسوڑی، کنایاری اور تو جھوم جیسے گانوں نے ہرکسی کو اپنا گرویدہ بنالیا اور انھیں بین الاقوامی سطح پر بھی خوب پذیرائی ملی۔

دی لیجنڈ آف مولاجٹ

پاکستانی فلمی صنعت میں غیرمعیاری فلموں کے بننے سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سینماپر پاکستانی فلمیں دیکھنا چھوڑ دیا تھا لیکن پھر نیا ٹیلنٹ آنے کے بعد سے پاکستانی ناظرین کو ایک بار پھر بہتر فلمیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اداکار، ہدایتکار، پروڈیوسر اور دیگر تکنیکی اسٹاف پاکستانی فلمی صنعت کو بین الاقوامی سطح پر مقابلے کے قابل بنانے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فلمیں بڑے پردے پر اچھا بزنس حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں، جس کا فائدہ فلمی صنعت کو ہوتا ہے۔ رواں سال پاکستانی فلمی صنعت کے لیے انتہائی کامیاب سال رہا، جس کی سب سے بڑی وجہ فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی ریلیز تھی، جس کی ابھی تک سینما میں نمائش جاری ہے۔ 

فلم کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بے حد پذیرائی مل رہی ہے۔ اس فلم نے پاکستانی سینما میں ایک شاندار تاریخ رقم کی اور اب تک باکس آفس پر تاریخ کی سب زیادہ بزنس کرنے والی پاکستانی فلم بن گئی ہے۔ دی لیجنڈ آف مولا جٹ نے 200کروڑ روپے کا بزنس کرنےوالی پہلی پاکستان فلم ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے جبکہ فلمی حلقوں کا خیال ہے کہ یہ فلم 250کروڑ روپے کا بزنس حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوجائے گی۔ جیو فلمز کی پیشکش، انسائیکلو میڈیا اور لاشاری فلمز کی شاہ کار فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ گذشتہ 4 سالوں میں برصغیر کی سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلم ہے۔

دی لیجنڈ آف مولا جٹ کو 13 اکتوبر 2022ء کو بین الاقوامی سطح پر 25 مختلف خطوں میں 500سے زائد اسکرینز پر دکھایا گیا، جو پاکستانی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں کچھ سینما چینز میں فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ ریلیز نہیں ہوئی، لیکن اس کے باوجود فلم نے پاکستان میں بھی اچھا خاصا بزنس کیا ہے۔ دنیا کے جن جن ممالک میں یہ فلم ریلیز ہوئی، وہاں اس نے کمال ریسپانس حاصل کیا اور اب تک کررہی ہے۔ 

فلم نے اپنی ریلیز کے چوتھے ہفتے میں دنیا بھر میں اب تک کی سب سے زیادہ بزنس کرنے والی پنجابی فلم کے ریکارڈ بھی توڑ دیے۔ دی لیجنڈ آف مولا جٹ 2022ء کے لیے برطانیہ میں برصغیر کی دوسری سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلم اور ناروے میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی جنوبی ایشیائی فلم ہے۔ پاکستان، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، کینیڈا، امریکا اور آسٹریلیا سمیت دنیا بھر کے فلمی شائقین نے اس فلم کو خوب سراہا ہے۔ دی لیجنڈ آف مولا جٹ کو پڑوسی ملک بھارت میں بھی 30دسمبر کو ریلیز کردیا گیا ہے۔ 

دنیا بھر میں فلم کی شاندار نمائش کے بعد بھارت میں اس فلم کا ریلیز ہونا ایک اور سنگ میل ہے۔ بھارت میں موجود فلمی بینوں، بالخصوص فلم کی کاسٹ میں شامل نامور پاکستانی اداکاروں کے بھارتی مداحوں کی اس فلم کو دیکھنے کی خواہش پوری ہورہی ہے۔ چونکہ فلم پنجابی زبان میں بنائی گئی ہے، اس لیے توقع ہے کہ فلم کو آنے والے دنوں میں بھارتی پنجاب میں مزید پذیرائی حاصل ہوگی۔

فلموں میں جدید ہتھیار، اسلحہ اور تلوار سے لٹرائی کے اس دور میں عوام کو کئی عشروں بعد ایک بار پھر گنڈاسا چلتا دکھائی دیا۔ فلم کے مرکزی کرداروں کا ذکر کریں تو مولا جٹ کا کردار فواد خان نے نبھایا ہے جبکہ ان کے مخالف نوری نت کے کردار میں حمزہ علی عباسی موجود ہیں۔ دونوں کو اپنی جاندار اداکاری کی بدولت فلم بینوں سے خوب پذیرائی مل رہی ہے۔ فلم بینوں کو مولاجٹ کے گنڈاسے اور نوری نت کی کلہاڑی کے خطرناک کھڑاک دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ 

پنجابی زبان کی اس فلم میں لوگوں کے لیے حیرت و دلچسپی کی بات اس کی کاسٹ کے حوالے سے رہی کیونکہ تقریباً زیادہ تر کاسٹ کو پنجابی بولنی نہیں آتی تھی لیکن انھوں نے محنت کرکے اپنے کردار کے صاف انصاف کیا اور ڈائیلاگ کی ادائیگی میں فلم بینوں کو یہ تاثر جانے ہی نہ دیا کہ انھیں پنجابی بولنا نہیں آتی تھی۔ چونکہ فواد خان اور حمزہ علی عباسی، دونوں کو ہی پہلے سے پنجابھی آتی تھی تو انھوں نے نہایت ہی خوبصورت انداز میں پنجابی ڈائیلاگز بولے ہیں۔ ویسے تو فلم کا ہر کردار دیکھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے لیکن ماہرہ خان کو ’مکھوجٹ‘ اور حمائمہ ملک کو ’دارونت‘ کے کردار میں بھی خوب سراہا جا رہا ہے۔ 

اس فلم میں ریشم، بابر علی، شفقت چیمہ، فارس شفیع، علی عظمت، نیراعجاز، آغا گوہر رشید اور دیگر مقبول فن کاروں نے بھی اپنے اپنے کرداروں کے ساتھ بھرپور انصاف کیا ہے۔ فلم کے مکالمے ناصرادیب نے لکھے جبکہ کہانی ناصر ادیب اور خود بلال لاشاری نے مل کر لکھی ہے۔ فلم کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں کوئی گانا شامل نہیں ہے سوائے صائمہ بلوچ کی ایک میوزیکل پرفارمنس کے، جوانھوں نے نہایت دلفریب انداز میں پیش کی ہے۔ فلم کی پسِ پردہ موسیقی اتنی جاندار ہے کہ وہ گانوں کی کمی محسوس ہونے نہیں دیتی۔

بلال لاشاری کی ہدایتکاری میں بننے والی پاکستانی تاریخ کی اس مہنگی ترین فلم میں مہنگے ترین ویژول ایفیکٹس اور نئی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔ اس فلم کو جدید ریڈ ایپک کیمرے سے عکس بند کیا گیا ہے۔ ہولی ووڈ کے فلم ساز اپنی فلموں کی شوٹنگ کے لیے اس کیمرے کا باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں، مگر کسی پاکستانی فلم کے لیے اس کا استعمال غالباً پہلی بار ہوا ہے۔ فلم کی عکس بندی پنجاب کے مختلف دیہی علاقوں اور بالخصوص لاہور کے شاہی قلعے میں کی گئی ہے جس نے پروڈکشن کو چارچاند لگادیے ہیں۔ 

فلم کے اسکرپٹ کی تیاری سے لے کر نمائش تک ایک عشرہ لگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ محض ایک فلم ہی نہیں ہے بلکہ ہماری دفلمی صنعت کے لیے ایک نئے دورکا سنہری آغاز ہےتو بیجا نہ ہوگا۔ اس فلم نے دورِ جدید کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے پاکستانی سینما کو ایک بار پھر عالمی سینما کے مدمقابل لاکھڑا کیا ہے۔

فلم کی پروڈیوسر عمارہ حکمت اس شاندار کامیابی کو بہترین ٹیم ورک کا نتیجہ قرار دیتی ہیں۔ فنکاروں سے لےکر ٹیکنیشن اور ہیلپرز تک ہر فرد نے خوب جانفشانی سے اپنے اپنے کام کو انجام دیا ہے۔ اس کی وجہ سے فلم بینوں کو ایک لاجواب فلم دیکھنے کو ملی، جس کا انتظار ان کو شدت سے تھا۔ ایسی فلمیں ہی فلمی صنعت کی بحالی اور ترقی میں کردار ادا کرتی ہیں۔

’پسوڑی‘ گانا

کلاسیکی گائیکی ہو، سیمی کلاسیکل، پاپ موسیقی ، راک یا موسیقی کی کوئی بھی قسم، یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ہر طرز کی موسیقی میں ہمیشہ باصلاحیت فنکارملے ہیں جنھوں نے بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کیا ہے۔ پاکستان کے گلوکاروں کے بعض عہد ساز گانوں اور موسیقاروں کی دھنیں اتنی مقبول ہوئیں کہ پڑوسی ملک میں ان کی نقل بھی کی گئی۔ 2022ء میں بھی پاکستان کے کئی گانے مقبول ہوئے جن میں سے ایک گانا ’پسوڑی‘ عالمی افق پر اتنا مقبول ہوا کہ ہم زبان تو کیا غیرزبان والے بھی اس کی دُھن کو گنگناتے دکھائی دیے۔ 

گلوکار علی سیٹھی اور شائے گل کا یہ گانا سرچ انجن گوگل پر بھی مقبول ترین سرچز کی عالمی فہرست میں سب سے زیادہ سرچ کیا جانے والا گیت بھی بنا۔ اس نے مقبول ترین کورین پاپ بینڈ بی ٹی ایس کے گانے ’بٹر‘ کو بھی پیچھے چھوڑا۔ 

جوں ہی یہ گانا منظرعام پر آیا تو دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پڑوسی ملک بھارت سمیت دنیا بھر میں موسیقی کے پرستاروں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ اس گانے کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی بے حد پذیرائی ملی۔ پسوڑی گانے کو معروف اسٹریمنگ ویب سائٹ کے گلوبل وائرل 50گانوں میں تیسری پوزیشن حاصل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

اس کے علاوہ، ایک بلوچی زبان کا گانا ’کنا یاری‘ بھی کافی مقبول ہوا۔ اس گانے میں فوک کے ساتھ ریپ کا تڑکا بھی لگایا گیا تھا۔ اس گانے میں بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے عبدالوہاب بگٹی، کیفی خلیل اور ایوا بی نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ 

اس گانے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پہلی مرتبہ ریپ میوزک کو بھی شامل کیا گیا ہے، جس میں نوجوان بلوچ سنگر کیفی خلیل اور دوسری خاتون ریپر ایوا بی ہیں، جنھوں نے حجاب کے ساتھ اس میں حصہ لیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ گانا سادہ شاعری کے ساتھ ایک خوبصورت کوشش ہے۔

فنون لطیفہ کا تابناک مستقبل

پاکستان شوبز انڈسٹری دنیا کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے لیکن دا لیجنڈ آف مولا جٹ جیسی فلمیں بناکر ہم دوسرے ممالک کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ امید ہے کہ 2022ء کی طرح 2023ء بھی پاکستان شوبز انڈسٹری کے لیے کامیابی و کامرانی لائے گا۔ مزید اچھی فلموں، ڈراموں اور گانوں سے نہ صرف پاکستانی بلکہ دنیا بھر کے ناظرین کو تفریح میسر آئے گی۔

تازہ ترین