میڈیا کئی دنوں سےجن خامیوں کی مسلسل نشاندہی کررہا تھا اس پر کسی نے توجہ دی،نہ کسی کے کان پر جوں تک رینگی اور پاکستان سپر لیگ ملتوی ہوگئی۔پاکستان سپر لیگ کا بایو سیکیور ببل اس قدر ان سیکیور تھا کہ بارہویں دن ہی پھٹ گیا اور ٹورنامنٹ14میچوں کے بعد اچانک ختم کردیا گیا۔ابھی تو ٹورنامنٹ کا آدھا سفر بھی طے نہیں ہوا تھا اور20 میچ باقی تھے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے ذمے داروں کے تعین کے لئے تحقیقات کرانے کا بھی عندیہ دیا ہے جبکہ پی سی بی چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے خود احتسابی پر بھی زور دیا ہے۔اس ٹورنامنٹ کے ختم ہونے سے پی سی بی کو بھاری مالی نقصان تو ہوا ہے لیکن اس کے پاکستان کرکٹ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اس کا جواب وقت آنے پر ہی ملے گا لیکن ٹورنامنٹ کا ختم ہونا اتنا سادہ اور آسان نہیں ہے جتنا دکھائی دے رہا ہے۔
کورونا کے سنگین وائرس کو نظر انداز کرکے جس طرح لاپرواہی برتی گئی اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔پاکستان سپر لیگ ملتوی ہونے کے بعد بنیادی سوال یہی سامنے آیا ہے کہ چھ کھلاڑیوں اور ایک کوچنگ ا سٹاف کے کوویڈ ٹیسٹ مثبت آنے کے پیچھے کیا عوامل ہوسکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان سپر لیگ میں جو بائیو سکیور ببل بنایا گیا تھا اس کی خلاف ورزی کس طرح ہوئی؟
پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے اب سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ غیر ملکی کرکٹرز اور ان کے کرکٹ بورڈز کا وہ اعتماد کس طرح حاصل کرے گا جو کووڈ کے بعد پی ایس ایل ملتوی ہونے کی وجہ سے متزلزل ہوا ہے۔ اس سال انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیموں نے پاکستان کا دورہ کرنا ہے اور پی ایس ایل جس صورتحال میں ملتوی ہوئی ہے ان ٹیموں کے کرکٹ بورڈز یقیناً اس پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے اور ان کے ہیلتھ سیفٹی کے بارے میں تحفظات دور کرنے کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔پاکستان سپر لیگ ،پاکستان کرکٹ کا وہ برانڈ ہے جس نے پانچ سالوں میں بلندیوں کو چھو لیا۔
نجم سیٹھی اور احسان مانی کی کوششوں سے یہ ٹورنامنٹ پاکستان میں ہونے لگا لیکن بد انتظامی کے بدترین واقعات کے بعدٹورنامنٹ کا ملتوی ہونا بہت سارے سوالات چھوڑ گیا۔اس کی مستقبل کی انٹر نیشنل سیریز پر بھی اثرات ہوسکتے ہیں۔شائقین کرکٹ اچھے مقابلے سے محروم ہوگئے جبکہ نوجوان کرکٹرز ایسے پلیٹ فارم سے محروم ہوگئے جس کا انہیں طویل عرصے سے انتظار تھا۔
پی سی بی چیئرمین احسا ن مانی اپنی انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں وہ جس قدر جلدی اس بدانتظامی کی تحقیقات کرائیں اور ذمے داروں کے خلاف ایکشن لیں گے اس کا فائدہ یقینی طور پر پاکستان کرکٹ کو ہوگا۔
وسیم خان ایسے ملک سے آئے ہیں جہاں کی اخلاقی اقدار کی لوگ مثال دیتے ہیں۔انگلینڈ سے آئے ہوئے وسیم خان کی انتظامی صلاحیتوں کا بھی امتحان یہی واقعہ ہے۔عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہوں گے کہ بایو سکیور ببل کوئی تہہ ہے لیکن درحقیقت یہ سماجی فاصلہ قائم کرنے کا ایک ایسا مؤثر طریقہ ہے جس میں داخل ہونے والا شخص باقی دنیا سے دور ہو جاتا ہے اور خود کو محفوظ سمجھتا ہے لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں کیونکہ اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی یکساں ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کس طرح اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جو بھی اس بائیو سکیور ببل کا حصہ بنا ہے وہ محفوظ رہے۔
لیکن کراچی کے فائیو اسٹار ہوٹل میں جہاں تقریبا ڈہائی سو کمروں میں پی ایس ایل کی چھ ٹیمیں آفیشلز ،امپائر اور میچ ریفری ٹھہرے ہوئے تھے وہاں ہر طرح کی پارٹیاں ہورہی تھیں۔کھلاڑی کسی کے قابو میں نہیں تھے سب سے بڑھ جن لوگوں نے انہیں کنٹرول کرنا تھا وہ خود بے بس دکھائی دیئے۔پاکستان سپر لیگ کے دو بڑے ا سٹیک ہولڈرز پاکستان کرکٹ بورڈ اور چھ فرنچائز مالکان ہیں۔ پی ایس ایل ملتوی ہونے کے بعد متعدد فرنچائز مالکان ٹی وی چینل پر نظر آئے اور انھوں نے پاکستان سپر لیگ کے ملتوی ہونے اور بائیو سکیور ببل کی خلاف ورزی کا ذمہ دار پاکستان کرکٹ بورڈ کو ٹھہرایا۔
فرنچائز مالکان نے پی سی بی کو آڑے ہاتھوں لیا۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے یہ بات واضح کی ہے کہ یہ وقت ایک دوسرے پر الزام تراشی کا نہیں ہے۔وسیم خان نے کہا کہ بلیم گیم کے بجائے اب ہمیں اپنے اس برانڈ اور پاکستان کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان سے بچانا ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر وسیم خان نے کہاکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ یہ سب کی اجتماعی ذمہ داری تھی، انھوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ جو بائیو سکیور ببل میں تھے ان پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ اس پر مکمل عمل کرتے۔ اس بارے میں مکمل تحقیقات ہوں گی کہ بائیو سکیور ببل کی خلاف ورزی کیسے اور کس نے کی؟ انھیں اس بات کی توقع تھی کہ فرنچائز مالکان کی جانب سے یہ ردعمل سامنے آئے گا۔ انھوں نے اسے جذباتیت کا نام دیا۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں جب پی ایس ایل سکس کا آغاز ہوا تو ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر موجود تھی اس لئے بیس فیصد تماشائیوں کو داخلے کی اجازت مل سکی تھی۔دعوے یہی کئے گئے کہ ہم نے پورے ڈومیسٹک سیزن کا کامیاب انعقاد کیا ہے۔زمبابوے اور جنوبی افریقا جیسی ٹیموں کی کامیاب میزبانی کی ہے اس لئے پی ایس ایل میں بنایا گیا بایو سکیور ببل مکمل طور پر محفوظ ہے۔20فروری سے شروع ہونے والے ٹورنامنٹ کے لئے ببل کا آغاز 17فروری سے کیا گیا تھا۔جیسے جیسے کھلاڑیوں کی منفی کوویڈ ٹیسٹ کی رپورٹ آتی رہی وہ ببل میں شامل ہوتے رہے۔
پہلا کیس لاہور قلندرز کے محمد فیضان کا سامنے آیا۔پاکستان سپر لیگ میں بائیو سکیو ببل کی خلاف ورزی کا پہلا واقعہ معین خان اکیڈمی میں اس وقت پیش آیا جب پشاور زلمی کے کپتان وہاب ریاض اور ہیڈکوچ ڈیرن سیمی نے اپنی ہی ٹیم کے مالک جاوید آفریدی سے معین خان کرکٹ اکیڈمی گراؤنڈ میں ملاقات کی۔
جاوید آفریدی بائیو سکیور ببل کا حصہ نہیں تھے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جاوید آفریدی، وہاب ریاض اور ڈیرن سیمی نے اس پر معذرت کی، ان تینوں نے نہ صرف سیلف آئسولیشن کی بلکہ ان کے کووڈ ٹیسٹ منفی آئے جس کے بعد وہاب ریاض اور ڈیرن سیمی کو ٹیم کا حصہ بننے کی اجازت دی گئی۔پھر آسٹڑیلوی فواد احمد مثبت ہوئے،اس کے بعد نہ روکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
بالاخر جمعرات کو جب حسن علی،حسین طلعت اور ٹام ایبل کے کورونا ٹیسٹ مثبت ہوئے تو ٹورنامنٹ غیر معینہ مدت کے لئے روک دیا گیا۔ کراچی کے جس ہوٹل میںچھ ٹیمیں ٹھہری ہوئی تھیں وہاں مبینہ طور پر بائیو سکیور ببل کی مختلف نوعیت کی خلاف ورزیاں عمل میں آئیں۔ ملتان سلطانز کی نمائندگی کرنے والے دو ٹیسٹ کرکٹرزنے اپنی سالگرہ دھوم دھام سےمنائی جس میں مبینہ طور پر کئی کرکٹرز شریک ہوئے۔
مبینہ طور پر ہوٹل میں باہر سے کھانے منگوانے کا سلسلہ جاری رہا حالانکہ اس پر مکمل پابندی تھی لیکن متعدد سینیئر کرکٹرز کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ ’اس بات پر بضد تھے کہ باہر سے کھانا آئے گا۔ایک بڑے کھلاڑی کے کھانے کو جب روکا گیا تو تھوڑی دیر میں اس کھلاڑی نے اپنے اثر و رسوخ سے کھانا کمرے میں منگوا لیا۔
شریک ٹیموں کو بھی یہ بتایا گیا تھا کہ وہ سیڑھیاں استعمال نہیں کریں گے لیکن کئی بار دیکھا گیا کہ کھلاڑی اور آفیشلز سیڑھیاں استعمال کر رہے تھے۔ہوٹل میں معمول سے زیادہ کیمرے نصب کرکے کھلاڑیوں کی نقل وحرکت پر نظر رکھی گئی اور اس کے ویڈیو شواہد موجود ہیں۔یہ بھی دیکھا گیا کہ ایک ٹیم جب نیشنل ا سٹیڈیم میں پریکٹس کر کے پریکٹس ایریا سے باہر نکلی تو وہاں شائقین ان کے بہت قریب موجود تھے۔نیشنل ا سٹیڈیم کا گراؤنڈ اسٹاف جو بائیو سکیور ببل کا حصہ نہیں تھا روزانہ ٹیموں کے قریب نظر آتا تھا۔
اسی طرح یہ بات بھی اہم تھی کہ روزانہ مین آف دی میچ کی ٹرافی کن کن ہاتھوں سے ہوتے ہوئے کھلاڑی تک پہنچتی تھی۔نیشنل اسٹیڈیم میںپاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر وسیم خان کی پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے ان کی توجہ اس جانب دلائی کہ مبینہ طور پر ایک فرسٹ کلاس کرکٹر ٹیم ہوٹل گئے جہاں وہ ملتان سلطانز کے آسٹریلوی بیٹسمین کرس لین سے ملے اور ان کے ساتھ سیلفی بھی بنائی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے مختلف کھلاڑیوں کے کورونا سے متاثر ہونے کے باعث پاکستان سپر لیگ کے چھٹے ایڈیشن کو ملتوی کرتے ہوئے کورونا ایس او پیز کی سنگین خلاف ورزیوں کے بعد اب بایو سیکیور ببل کو آوٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔انگلینڈ،بھارت اور آسٹریلیا کی طرح پاکستان بایو سیکیور ببل کے لئے کسی کمپنی کی خدمات حاصل کرے گا۔
وسیم خان نے کہا کہ یہ کام مہنگا ہے لیکن غیر ملکی ٹیموں کا اعتماد بحال کرنے کے لئے ہمیں اس جانب جانا ہوگا۔ہم نے گزشتہ دنوں بڑی کامیابی سے جنوبی افریقا کے خلاف سیریز کر ائی ۔ ہمیں ان حالات سے سبق سیکھنا ہوگا، بہتر انتظامات کرنا ہوں گے۔
انہوں نے کہاکہ بائیو سکیور ببل کا معاملہ اعتماد کا ہے اور جب کھلاڑیوں کا اس پر اعتماد نہ رہے تو کرکٹ کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس بات کی تفتیش کر ائی جائے گی کہ کوتاہی کہاں ہوئی اور یہ تفتیش پی سی بی خود نہیں کرے گا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ پی ایس ایل کے بقیہ میچ جلد سے جلد کرانا چاہتا ہے اور یہ میچ اس شہر میں کرائے جائیں گے جہاں پورا ہوٹل پاکستان کرکٹ بورڈ کو ملے گا۔ مئی،ستمبر اور دسمبر میں دو ہفتے کی ونڈو نکال کر ٹورنامنٹ کو مکمل کیا جائے گا۔دیکھنا یہ ہے کہ واقعے سے پاکستان کرکٹ بورڈ کیا سبق سیکھتا ہے اور ذمے داروں کے خلاف کیا کارروائی ہوتی ہے۔یہ سنگین غلطی پاکستان کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔