• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے سال مغربی ممالک میں اور ہمارے یہاں بھی یہ شور مچا کہ لڑکیاں جو رنگ گورا کرنے کی کریمیں استعمال کرتی ہیں، ان سےوقتی طور پر تو رنگ سفید ہوجاتا ہے مگر کچھ عرصے بعد، چہرے پہ بدرنگ دھبے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ کئی دفعہ دانے نکل آتے ہیں ۔میڈیا پر شور مچا کہ تمام رنگ گورا کرنے والی کریمیں بازار سے اٹھالی جائیں اور ان کے اشتہار بند کردیے جائیں۔ اب ہوا یہ کہ لفظبدل کر چہرے ویسے ہی دکھائے جاتے رہے۔ بالکل اس طرح جیسے ایک زمانے میں سگریٹ پینے والوں کے لیے بڑے جاندار اور ڈرامائی اشتہار بنائے جاتے تھے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ساری دنیا نے تمباکو نوشی بند کروائی۔ سگریٹ تو ابھی بھی پئے جارہے ہیں، مگر بس اسٹاپ، سڑکوں اور ٹیکسیوں میں۔

پیمرا کے ماتحت صرف ٹی وی اسٹیشن ہی نہیں تمام ایف ایم ریڈیو چینل بھی آتے ہیں۔ ان سب اداروں میں جو کچھ پیش کیا جاتا تھا، اس کے لیے آبزرویشن کمیٹی تھی جس کی سربراہ میں تھی۔ اب چھوٹے شہروں میں جو اشتہار آتے تھے، وہی ’’اولاد پیدا کرنے کے نسخے‘‘، ’’بچوں کو دودھ پلانے کا طریقہ‘‘، ’’بچوں میں موسمی بیماریوں کے علاج‘‘۔ ایسے تمام معاملات کو مقامی حکیم پیش کیا کرتے تھے۔ کچھ بہت ہی قابلِ اعتراض نسخے بتائے جاتے تھے، ان لوگوں کو جب ہم بلاکر پوچھتے تھے کہ کیا ایسے نسخوں کو آپ اپنے بچوں پر بھی استعمال کرتے ہیں تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے تھے۔یہ اشتہاری مہم ختم تو آج تک نہیں ختم ہوئی۔ یاد کریں تین سال پہلے، زبیدہ آپا کے ٹوٹکے آتے تھے۔ وہ اتنے مقبول ہوئے کہ پھر ہر چینل نے پہلے بیوٹی سیلون شروع کیے۔ کپڑوں کے فیشن بتانے شروع کئے پھر ایک طوفان ہر چینل پر آگیا ’’ہربل‘‘ دوائیاں، کبھی مرد اورکبھی خواتین آپ کے سامنے مختلف حکیموں کے نسخے بتاتے تھے۔ کبھی کبھی تیار کرکے بھی دکھاتے تھے۔ تھوڑا سا اتہ پتہ کیا تو ہم سب پر یہ عقدہ کھلا کہ یہ تو باقاعدگی کے ساتھ دکانداری ہورہی ہے کہ ان بنائے ہوئے نسخوں کا کسی لیبارٹری میں ٹیسٹ بھی نہیں کیا جاتا۔ ان پیش کار لوگوں میں، میری طرح کی عمر رسیدہ عورتیں اور مرد شامل ہیں جنہوں نے باقاعدہ حکمت کے کورس نہیں کیے ہوئے لیکن سامعین کو اپنے پتے اور فون نمبر بھی بتاتے ہیں۔ ایک خاتون جس کے چہرے کی جھریاں خود عمر کا فسانہ بتاتی ہیں، وہ ہر طرح کی جوانی قائم رکھنے کے نہ صرف نسخے بلکہ نمونے کے طور پر منہ بند بوتلیں جو ان کے نام کے ساتھ سامنے آتی ہیں، دکھاتی ہیں۔

اب جو پروگرام قانونی مشوروں، صحت سے متعلق مستند ڈاکٹروں کی ہدایت پر پیش کیے جائیں۔ وہ تو مستحسن مگر استخارہ کرنے، جن اتارنے اور رشتے کرانے کے لیے وظیفے پڑھنے کے ہدایت نامے، معصوم اور کچے ذہنوں کو کینسر کا علاج تک بتانے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ ان تعویذوں اور گنڈے دار نسخوں سے کئی لڑکیوں میں جسمانی خرابی اور لڑکوں میں بے راہ روی فروغ پاتی ہے۔چلیے یہاں تک تو کچھ علاج اس کا بھی کیا جاسکتا ہے۔ مجھے یہ بتائیں کہ بجلی کے بل میں سو روپے ٹیکس ٹی وی کابھی داخل ہوتا ہے مگر یہ چار پانچ چینل پر جو اشتہار موٹاپا کم کرنے، بال نئے لگانے وغیرہ وغیرہ قسم کے دکھاتے ہیں، ان اشتہارات کی بھی کسی کمپنی سے باقاعدہ تصدیق نہیں ہوتی ۔ یہ اشتہار کس کی اجازت سے دکھائے جاتے ہیں؟ آپ منتظمین سے جواب چاہیں تو کہیں گے کہ خرچے پورے نہیں ہوتے، جب آپ افسروں کو بائیس لاکھ مہینہ دینگے اور آرٹسٹوں کو ڈرامہ بنانے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینگے جہاں پر دوسرے شاٹ میں لڑکی یا ماں کو گھسیٹ کر باہر نکالا جارہا ہوتا ہے پھر مصلے پر بیٹھی ماں اور رشتے کے بھائو تائو کو دکھایا جائے توایسا ہی ہوگا۔ مزاح کے نام پر مراثیوں کے منہ سے لغو مکالمے ادا کرواکے ہماری نوجوان نسل کو آپ کیا سمجھانا چاہتے ہیں۔ دیکھ رہے ہیں ٹک ٹاک کا انجام۔ دیکھ رہے ہیں سیلفی کا انجام! اللہ توبہ۔

آخر میں موسیقی کی جانب، سچ بتائوں ہماری قومی زبانوں کے لوک ادب کا جس طرح ستیاناس مختلف سازوں کے اچار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ جواب میں اختر وقار عظیم کہہ سکتے ہیں کہ سب سے مقبول چینل کھانا پکانے والا ہے اور رسالہ جو کھانوں کے بارے میں نکلتا ہے وہ 50ہزار بکتا ہے۔

اب دیکھئے نا، ستر کروڑ کا ہندسہ، کسی نے تو وزیراعظم کے منہ میں ڈالا تھا کہ وہ بار بار دہرا رہے تھے۔ میں تو بار بار پوچھتی ہوں کہ اگر ہمارے ملک میں اس قدر پیسہ ہے کہ ہر روز پورے پورے صفحے کے نئے شہروں کے بننے سے متعلق، اشتہار شائع ہوتے ہیں۔ پھر سینیٹ الیکشن کا رولا۔ پچھلے الیکشن کے وقت، ہر چند سیکریٹ بیلٹ تھے۔ مگر اس وقت کے اہم شخص نے سیکریٹ بیلٹ کو باقاعدہ ٹی وی کیمرے کو دکھا کر ڈالا تھا۔ یہ بتانے کو کہ پیسہ لیا ہے، اس کو حرام نہیں کررہا ۔ ہمارے ہمسایوں میں ان سیٹوں پر سینئر ادیبوں، کھلاڑیوں اور ایکٹوسٹ خواتین کے نام لیے جاتے ہیں۔ فلمسٹار نرگس سے لیکر آج کے اہم شاعر جاوید اختر بھی سینیٹ کے ممبر رہے ہیں۔ آئینے میں ہم خود کو دیکھیں کہ ہم کن کو سینیٹر بنارہے ہیں؟ نتیجہ آپ کے سامنے۔

تازہ ترین