• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  کراچی(تجزیہ: مظہر عباس) وزیراعظم عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کو خود ان کی گیم میں پھر شکست دے دی. خفیہ کیمرے سے خفیہ بیلٹ تک یہ ڈرامہ 12 مارچ کو سینٹ میں دن بھر چلا. 

یہ تقریباً 3 مارچ کا ایکشن ری پلے تھا. اگرچہ ایسے حربے چالیس سال سے ہمارے نظام کا حصہ چلے آ رہے ہیں لیکن ان دو ہفتوں میں تو نام نہاد جمہوریت پسند بہت ہی ذلیل ہوئے ہیں.

 خفیہ کیمروں کے معاملے کا اسرار پارلیمنٹ کے اعلیٰ ترین ایوان کی سیکورٹی کی سنگین خلاف ورزی کے طور پر یاد رکھا ہی جائے گا، چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی کے مبینہ طور پر اپنی مدت ختم ہونے سے صرف ایک دن پہلے ایک ریٹائرڈ میجر کو اسامی کےکسی اشتہار کے بغیر سینیٹ کا چیف سیکورٹی آفیسر مقرر کرنے کے سوال نے اسرار کو مزید گہرا کردیا ہے. 

سنجرانی صاحب کی اپنی ایک دلچسپ تاریخ ہے. وہ شاید سینٹ کے سب سے خوش قسمت چئیرمین ہیں. 

2018 میں انہیں آصف علی زرداری کی حمایت ملی اور وہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے چودہ سینیٹروں کی مدد سے تحریک عدم اعتماد سے بچ نکلنے میں کامیاب رہے اور اب 2021 میں بھی انہوں نے اپنا عہدہ برقرار رکھا لیکن اس بار عمران خان اور سات مشتبہ سینیٹرز کی مدد سے.کرکٹ کے زمانے میں عمران خان کا خفیہ ہتھیار لیگ سپنر عبدالقادر مرحوم ہوا کرتے تھے.

 وہ بال کرتے تو بیٹسمین دیکھتے ہی رہ جاتے کی وہ گئی کدھر. یوں انہوں نے خان کو کئی میچ جیت کر دئیے. سیاست میں خان کا خفیہ ہتھیار پرویز خٹک ہیں. جنہوں نے کئی بار کپتان کو بحران سے نکالا.

 وہ اس بات کی گہری سمجھ رکھتے ہیں کہ کب فری اور فاؤل کھیلنا ہے. پرویز خٹک 2011 میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے. انہیں پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابی سیاست کا خوب تجربہ ہے.

 ماضی میں وہ پیپلزپارٹی میں رہے لیکن جب پیپلزپارٹی سندھ اور گلگت بلتستان تک محدود ہوگئی تو پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے دوسرے کئی جیالوں کی طرح انہوں نے بھی پارٹی چھوڑ دی.

2013 میں تحریک انصاف واحد اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی تو پرویز خٹک نے اپنی سیاسی ذہانت اور جوڑ توڑ کی مہارت سے عمران خان کو بہت متاثر کیا اور انہوں نے انہیں خیبر پختون خواہ کا وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا. اس فیصلے سے اس عہدے کے دوسرے امیدوار اسد قیصر، عاطف خان وغیرہ حیران رہ گئے. 

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا نام خیبر پختون خواہ میں پارٹی کے بانیوں میں سے ایک شوکت یوسف زئی نے تجویز کیا تھا جو سمجھتے تھے کہ پرویز خٹک حکومت بنانے اور چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں.

 اور انہوں نے خان کو مایوس نہیں کیا. 2018 کے انتخابات سے ایک ماہ پہلے انہوں نے ان ایم پی ایز کی نشاندہی کر دی جنہوں نے ان کے خیال میں پارٹی کو دھوکہ دیا اور عمران خان سے کہا کہ اگلے الیکشن جیتنے ہیں تو انہیں عبرت ناک مثال بنا دیں. 

پی ٹی آئی نے اپنے بیس ایم پی اے نکال کر ایک تاریخ بنادی. اس سے عمران خان کو ایک اخلاقی برتری حاصل ہوگئی اور اس کے نتیجے میں ایک ماہ بعد ہونیوالے الیکشن میں تحریک انصاف نے بھاری اکثریت حاصل کرکے یہ بھی تاریخ بنادی کہ اس صوبے میں پہلی بار کوئی پارٹی مسلسل دوسری بار جیتی. 

لیکن خان نے پرویز خٹک کو دوبارہ وزیر اعلیٰ نہ بنا کر سب کو حیران کر دیا. ایسی خبریں تھیں کہ خان سوچ رہے تھے کہ خٹک صوبے میں زیادہ ہی طاقتور ہوتے جارہے ہیں.

 ان سے وفاق میں ایک اہم وزارت کا وعدہ کیا گیا لیکن دی لو پروفائل دفاع گئی. خٹک خوش تو نہیں تھے لیکن خان کا فیصلہ قبول کیا.

 وہ اور جہانگیر ترین پارٹی میں پاور پالیٹکس کو سمجھنے والے طاقتور لوگ تھے لیکن خان کو 2018 میں اس وقت جھٹکا لگا جب ترین نااہل قرار دے دئیے گئے. وہ پارٹی میں دوسرے نمبر پر تھے اور انہیں پنجاب میں اعلیٰ ترین حیثیت ملنے ہی والی تھی اگرچہ پارٹی کے اندر اور بالخصوص شاہ محمود قریشی کی طرف سے مخالفت بھی تھی.

 پی ٹی آئی میں اندرونی سیاسی رقابتیں 2013 میں پارٹی کے پہلے انتخابات میں اس قدر سامنے آئیں کہ جب جسٹس وجیہہ الدین کی سربراہی میں الیکشن ٹربیونل نے وسیع پیمانے پر دھاندلی کی نشاندہی کی اور جہانگیر ترین، علیم خاں وغیرہ کے نام بھی لئے تو عمران خان نے یہ کہہ کر کہ جسٹس وجیہہ الدین کو یہ رولنگ دینے کا اختیار نہیں تھا، پارٹی کے اندر جمہوریت کو عملاً دبا ہی دیا. 

جج صاحب نے پارٹی چھوڑدی. ان کے بعد تسلیم نورانی نے وہی لائن اختیار کی تو ان کا بھی وہی انجام ہوا۔

تازہ ترین