زیڈ اے بخاری مرحوم جب ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل تھے تو وہ ا س بات کا بہت خیال رکھتے تھے کہ ریڈیو سے جو پروگرام نشر ہوں ان میں زبان کی کوئی غلطی نہ ہو ۔ اگر کسی فن کار، لکھاری یا خبریں پڑھنے والے سے تلفظ یا قواعد کی کوئی غلطی ہوجاتی تو وہ سختی سے باز پرس کرتے ۔
یہی وجہ تھی کہ ریڈیو کے عملے کے افراد اور فن کار اپنی صحت سے زیادہ زبا ن کی صحت کا خیال رکھتے تھے اور عام زندگی میں بھی یہ ملحوظ رکھتے تھے کہ غلط زبان نہ تو بولی جائے اورنہ لکھی جائے۔ یہ واقعہ مشہور ہے کہ ایک بار ریڈیو کے ایک ملازم نے رخصت کی درخواست دی اور لکھا کہ ’’میں نے پشاور جانا ہے‘‘ لہٰذا مجھے چھٹی عنایت کی جائے ۔ اتفاق سے ان کے کسی ساتھی کی نظر اس درخواست پر پڑی تو انھوں نے کہا کہ یہ درخواست لے کر بخاری صاحب کے پاس گئے تو چھٹی ملنا تو درکنار، غلط اردو لکھنے کے جرم میں برطرف بھی کیے جاسکتے ہوکیونکہ بخاری صاحب کہتے ہیں کہ میں نے جانا ہے اور میں نے کرنا ہے جیسے جملے قواعد کی رُو سے غلط ہیں۔
لیکن چھٹی کی درخواست والے صاحب بضد تھے کہ’’ میں نے جانا ہے ‘‘درست ہے اور ہم لوگ تو اسی طرح بولتے ہیں۔ آخر طے ہوا کہ اس کا فیصلہ بخاری صاحب ہی کریں گے۔ دونوں جب بخاری صاحب کے پاس پہنچے تو مقدمہ سن کر ان کی رگ ِ ظرافت پھڑکی (بخاری صاحب حسِ مزاح کے لیے بھی مشہور تھے )اور وہ کہنے لگے کہ ’’میں نے پشاورجانا ہے‘‘ درحقیقت ’’مجھے پشاورجانا ہے ‘‘سے زیادہ بلیغ ہے ۔ اس پر تصحیح کرنے والے صاحب گڑبڑاگئے اور کہنے لگے کہ سر یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟آپ نے تو ہمیشہ یہ کہا ہے کہ’’ مجھے جانا ہے‘‘ درست ہے اور ’’میں نے جانا ہے ‘‘ غلط ہے۔
بخاری صاحب نے کہا کہ دیکھو جب کوئی کہتا ہے کہ ’’مجھے پشاورجانا ہے‘‘ تو صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے کہاں جانا ہے لیکن جب کوئی کہتا ہے کہ ’’میں نے پشاور جانا ہے ‘‘ تو نہ صرف یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اسے کہاں جانا ہے بلکہ یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ یہ آیا کہاں سے ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ میں نے جانا ہے زیادہ بلاغت کا حامل ہے۔
بخاری صاحب نے جو بات مذاق ہی مذاق میں سمجھانی چاہی وہ یہ تھی کہ کچھ مخصوص علاقوں (مثلاً پنجاب ) کے لوگ اس طرح بولتے ہیں مگر یہ درست نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ’’ میں نے جانا ہے ‘‘ کیوں غلط ہے اور’’ مجھے جانا ہے ‘‘کیوں درست ہے۔
اس کاجواب جاننے کے لیے پہلے اردو قواعد کی دو اصطلاحات فعلِ لازم اور فعلِ متعدی کو سمجھنا ہوگا۔ فعلِ لازم وہ فعل ہے جس کا اثر صرف کرنے والے یعنی فاعل تک رہتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں فعل لازم وہ فعل ہے جس کا کوئی مفعول نہیں ہوتا ، مثلاً آنا ، جانا ، چلنا، دوڑنا، بیٹھنا، سوناوغیرہ ۔ان افعال کے ساتھ ہم ’’نے ‘‘ نہیں لگاتے، مثلاً :میں آیا ، میں گیا، میں بیٹھا، میں دوڑا ،میں سویا ، یعنی :
میں نے آیا (غلط)
میں آیا (صحیح )
میں نے گیا (غلط )
میں گیا (صحیح)
دراصل اردو میں’’نے ‘‘علامت ِ فاعل ہے اوریہ لفظ صرف ان جملوں میں استعمال ہوسکتا ہے جن کا کوئی مفعول ہو (چاہے جملے میں مفعول موجود ہو یا محذوف)۔آنا اور جانا وغیرہ چونکہ فعلِ لازم ہیںاور ان کا کوئی مفعول نہیں ہوتا لہٰذا ان کے ساتھ ’’نے‘‘ لگانا درست نہیں۔ جبکہ جس فعل کا اثر مفعول تک پہنچے وہ فعل ِ متعدی ہوتا ہے ۔ گویا فعل ِ متعدی کا مفعول ہوتا ہے ، مثلاً کھانا ، پینا ، دیکھنا ، پڑھنا،وغیرہ، ان افعال کاصیغۂ ماضی بنانے کے لیے ’’نے ‘‘ لگانا پڑتا ہے، جیسے : میں نے کھایا ، میں نے پیا، میں نے دیکھا۔لفظ ’’نے ‘‘ زمانۂ ماضی کے ساتھ آتا ہے اور یہ زمانہ ٔ حال یا مسقبل کے ساتھ نہیں آسکتا۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جس جملے میں فعلِ لازم استعمال ہو اس میں ’’نے ‘‘ نہیں آسکتا ۔ ’’نے ‘‘ فعلِ متعدی کے ساتھ لگتا ہے یعنی وہ فعل جس کا مفعول ہو (خواہ مفعول ظاہر ہو یا محذوف) ۔ مثال کے طور پر :
میں دیکھا (غلط)
میں نے دیکھا (صحیح)
میں کھایا (غلط)
میں نے کھایا (صحیح)
اس جملے (میں نے دیکھا)میں مفعول بظاہر موجود نہیں ہے لیکن ہے ، گو محذوف ہے ، کیونکہ کوئی چیز ہوگی جو آپ نے دیکھی۔ اب اگر مفعول کا اضافہ کریں تو جملہ یوں ہوگا:
میں نے شیر دیکھا (صحیح )
اس جملے میں ’’میں ‘‘ فاعل ہے ، ’’نے ‘‘ علامت ِ فاعل ہے ، ’’شیر ‘‘ مفعول ہے اور’’ دیکھا ‘‘فعل متعدی کا صیغہ ٔ ماضی۔ اگر اس میں سے ’’نے ‘‘(یعنی علامت ِ فاعل) نکال دیں تو جملہ غلط ہوجائے گا ۔لیکن اگر ’’شیر ‘‘(یعنی مفعول) نکال دیں تب بھی جملہ درست ہوگا (کیونکہ اس صورت میں مفعول یعنی شیر محذوف ہوگا )۔
یاد رکھنے کی دوسری بات یہ ہے کہ ’’نے ‘‘ ماضی کے ساتھ لگتا ہے، حال یا مستقبل کے ساتھ نہیں۔ گویا’’میں نے جانا ہے ‘‘اس لیے غلط ہے کہ اول تو ’’جانا ‘‘ فعلِ لازم ہے متعدی نہیں ہے ، دوسرے یہ کہ ’’جانا ہے ‘‘ماضی کا صیغہ نہیں ہے ۔اگرچہ اب لوگ عام طور پر ’’میں نے جانا ہے ‘‘اور ’’میںنے یہ کام کرنا ہے‘‘وغیرہ بولنے لگے ہیں لیکن یہ درست نہیں ہے۔
بلکہ’’ میں نے جانا ہے ‘‘کا مطلب ہوگا ’’میں نے جان لیا ہے ‘‘ یعنی مجھے معلوم ہوگیا ہے۔مثال کے طور پر غالب کا شعر دیکھیے :
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اس کے دوسرے مصرعے میں:
’’میں نے یہ جانا ۔۔۔‘‘ کا مفہوم ہے: میں نے یہ جان لیا۔
حضرت ڈاکٹر غلام مصطفی ٰخاں صاحب نے ’’جامع القواعد‘‘ میںوضاحت کی ہے کہ قاعدہ تو یہ ہے کہ ’’نے‘‘ فعل ِ متعدی کے فاعل کے ساتھ آتا ہے لیکن کچھ افعال ایسے ہیںجو اس قاعدے سے مستثنیٰ ہیں ، مثلاً’’تھوکنا ‘‘فعل لازم ہے لیکن اس کے ساتھ ’’نے ‘‘ لکھنا پڑے گا ، یعنی ’’میں تھوکا‘‘ نہیں بلکہ ’’میں نے تھوکا‘‘درست ہوگا۔
ڈاکٹر صاحب نے نشان دہی کی ہے کہ اردو کے بعض افعال متعدی ہیں لیکن ان کے ساتھ بھی علامت ِ فاعل ’’نے ‘‘ نہیں لائی جاتی اور یہ مستثنیات میں سے ہیں، مثلاً :
لانا (میں لایا)، بھولنا یا بھول جانا (میں بھول گئی)، شرمانا (وہ شرمایا)، لے جانا (میں لے گیا)۔ اسی طرح فعل ِمتعدی کے ماضی ٔ استمراری (یعنی جاری ) کے ساتھ بھی ’’نے ‘‘ نہیں لگتا ،مثلاً: میں کھارہا تھا ،میں دیکھ رہا تھا، وغیرہ، ’’نے ‘‘ کے بغیر ہی درست ہیں۔
دوسری وضاحت ڈاکٹر صاحب نے یہ کی ہے کہ اردو کے بعض مصادر یاافعال ایسے ہیں جو لازم اور متعدی دونوں معنوں میں استعمال ہوتے ہیں،مثلاً بدلنا ، پکارنا۔ جب اس طرح کے مصادر یا افعال لازم کے معنوں میں بولیں گے تو علامت ِ فاعل ’’نے ‘‘نہیں بولی جائے گی ، مثال کے طور پر :
میں بدل گیا ، وہ بدلا، وہ نہیں بدلی۔
اسی طرح وہ پکارا، وہ پکاری۔ اکبر الہٰ آبادی کا مصرع یاد آگیا:
پپیہے پکارا کیے پی کہاں
لیکن جب یہ مصدر متعدی کے معنوں میں استعمال ہوں گے تو علامت ِ فاعل ’’نے ‘‘لائی جائے گی ، جیسے:
اس نے کپڑے بدلے، اس نے مجھے پکارا۔
خلاصہ اس ساری گفتگو کا یہ ہے کہ’’ مجھے جانا ہے‘‘ ،لہٰذا اجازت دیجیے۔