تفہیم المسائل
سوال: ایک شخص نے دوسرے پر زنا کا الزام لگایا ، ملزم نے ثبوت مانگا تو الزام لگانے والے کے پاس کوئی گواہ نہیں، ملزم قسمیہ کہتا ہے کہ مجھ پر جھوٹا الزام لگایا ہے ،تو اس کی اس بات کو بھی قبول نہیں کرتا ،ایسے شخص کا شریعت میں کیا حکم ہے ؟(زرولی خان،ہری پور۔ ہزارہ)
جواب: قرآن وسنّت کی رُو سے زنا ایک سنگین جرم ہے ،لیکن ثبوتِ شرعی کے بغیر جرم ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ محض الزام کہلاتا ہے اور قانون کی زبان میں بھی اُسے ملزَم کہاجاتا ہے ۔اگر شرعی معیار (یعنی چار عینی گواہوں یا مجرم کے اقرار)سے مُجاز عدالت کے سامنے جرم ثابت ہوجائے تواسلامی ریاست میں یہ جرم ’’موجبِ حد‘‘ ہے اور اس پر حَدِّ شرعی نافذ کرنا صرف عدالت کا دائرۂ اختیار ہے ۔اگرارتکابِ جرم کے وقت وہ شخص عاقل وبالغ اور غیر شادی شدہ تھا، تو قرآن مجید میں اُس کی سزا سو کوڑے ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :ترجمہ:’’(غیر شادی شدہ )زانیہ عورت اور زانی مرد ان میں سے ہر ایک کو تم سوکوڑے مارو اور ان پر شرعی حکم نافذ کرنے میں تم کو ان پر رحم نہ آئے اگرتم اللہ پر اورروزِ قیامت پر ایمان رکھتے ہو اوران کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت حاضر ہونی چاہیے، (النور:2)‘‘۔
اگر کسی پر زنا کا الزام لگایاجائے اور وہ شخص جرم سے انکاری ہو اور مُدَّعی عدالت میں چار گواہوں سے اپنے دعوے کو ثابت نہ کرسکے ،تو اُس الزام لگانے والے پر حَدِّقذف جاری ہوگی ،جو اَسّی کوڑے ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ترجمہ:’’ اور وہ لوگ جو پاکدامن عورتوں پر زناکی تہمت لگائیں ، پھر(عدالتِ مُجاز کے سامنے) چار عینی گواہ پیش نہ کرسکیں،تواُنہیں (حَدِّقذف کے)اَسّی کوڑے لگاؤ اور (آئندہ) اُن کی شہادت کبھی بھی (عدالتِ مُجاز میں) قبول نہیں ہوگی (یعنی وہ مردودالشہادت ہوں گے) اور وہی لوگ فاسق ہیں ، (النور: 4 )‘‘۔
حدود قائم کرنا حاکمِ اسلام یااُس کے مقررہ و مُجازقاضی کا کام ہے ۔آج حاکمِ اسلام یا اسلامی عدالتی نظام موجود نہیں ،انفرادی حیثیت میںکسی شخص کو یا کسی جماعت یا کسی قبیلے اور جرگے کو کسی مجرم کو سزا دینے کا اختیار نہیں ہے ۔ ایسا شخص فاسق وفاجر اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے ،اس کی گواہی کسی موقع پر قبول نہ کی جائے ۔معاشرتی سطح پر اس کا مقاطعہ کیاجائے اور اگر ممکن ہو تو اُس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے ۔حدیث پاک میںہے :
ترجمہ:’’ الزام کے ثبوت کے لیے گواہ پیش کرنامُدّعِی کی ذمے داری ہے ،ورنہ (گواہوں کی عدم دستیابی کی صورت میں) مُدّعٰی علیہ (اگر اعترافِ جرم سے انکاری ہے تو اس ) کو قسم دی جائے گی ، (سنن ترمذی: 1339 ) ‘‘ ۔الغرض اس صورت میں مُدّعیٰ علیہ عدالت سے بری ہوجائے گا ،اس سے شرعی تقاضا پورا ہوجاتا ہے ،اگر کوئی رسول مکرم ﷺ کے فرمان کو تسلیم نہیں کرتا تو اسے اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے ۔حدیث پاک میں ہے :ترجمہ:’’ جو کسی مسلمان کے بارے میں ایسی بات کہے ، جو اس میں نہیں پائی جاتی ،تو اسے اللہ تعالیٰ اس وقت تک ’’ رَدغۃ الخبال ‘‘یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی خون پیپ جمع ہوگی ، اس میں رکھے گا ،جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہوجائے ،(سُنن ابو داؤد:3597)‘‘۔
اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
tafheem@janggroup.com.pk