• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج جاپان میں انسانی تاریخ کے اس عظیم انسان کی سالگرہ منائی جاری ہے جس نے لگ بھگ ڈھائی ہزار سال قبل ہمالیہ کی ایک ریاست کے شاہی گھرانے میں آنکھ کھولی، اس کی پیدائش پر نجومیوں نے پیش گوئی کی کہ نومولودبچہ بڑا ہوکر بہت بڑا بادشاہ بنے گا یا بہت بڑا سادھواور شہزادے کا نام رہتی دنیا تک ادب و احترام سے لیا جائے گا۔ شہزادہ سدھارتھ نامی یہ بچہ تاریخ میں گوتم بدھ کے نام سے مشہور ہواجس نے شاہی زندگی ترک کرکے انسانی زندگی کے اصل مقصد کو کھوجنے کی خاطربدھ مت کی بنیاد رکھی، آج ہزاروں سال بیت جانے کے باوجود گوتم بدھ کو اس کی مثبت تعلیمات کی بدولت امن کا پیامبر قرار دیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر گوتم بدھ کی تاریخ پیدائش ایشیائی شمسی قمری تقویم سے طے کی گئی ہے جو گریگوری کیلنڈر کے مطابق اپریل یا مئی میں بدل بدل کر آتی ہے، تاہم جاپان میں میجی اصلاحات کے بعد گریگوری تقویم اپنا لی گئی تھی اور گوتم بدھ کی سالگرہ ہر سال 8اپریل کو دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔ملک بھرمیں بدھ بھکشو اپنے مندروں کی خوبصورت رنگوں اور موم بتیوں سے سجاوٹ کرتے ہیں، جاپان میں بدھ کے جنم دن کو پھولوں کا تہواربھی کہا جاتا ہے، اس موقع پر کاغذی شیر کا روایتی ناچ پیش کیا جاتا ہے۔زبان کا میٹھا نرم دل شہزادہ گوتم بچپن ہی سے غور و فکر اور سوچ بچار میں مصروف رہتا،انسان چرند پرند سمیت تمام مخلوق پر ترس کھاتا اورانکی مشکلات دور کرنے کیلئے کوشاں رہتا۔ وہ تیس سال کی جواں عمر میں ایک دن شاہی محل چھوڑ کرزندگی کی اصل حقیقت کھوجنے جنگلوں میں نکل گیا۔ گوتم بدھ نے روحانی سکون کے حصول کیلئے فاقے کئے، اپنے جسم کو تکلیفوں سے گزارا آخرکار جان گیا کہ سکون کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ نیک اور پاک زندگی بسر کی جائے، سب پر رحم کیا جائے اورکسی کو تکلیف نہ پہنچائی جائے۔بدھا کے فلسفے کا پہلا اصول یہ ہے کہ ہماری زندگی کی کامیابی کا دارومدار ہماری سوچ پر ہے، اگر ہم زندگی میں منفی طرز عمل اختیار کریں گے تو مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جائیں گے جبکہ حقیقت پسندانہ سوچ ایک خوشحال زندگی کی ضمانت ہے۔ بدھا کے فلسفے کے دوسرے ا صول کے مطابق ایک صحتمند زندگی گزارنے کےلئے منفی خیالات پر قابو پانا بہت ضروری ہے، بدھانے تیسرا اصول یہ پیش کیا کہ انسان کے دُکھی ہونے کی سب سے بڑی وجہ دنیاوی چیزوں سے لگاؤ ہے، لوگ اپنی بڑی بڑی توقعات پوری نہ ہونے پر دل برداشتہ ہو جاتے ہیں اور ان کے ُسکھ بالآخردُکھ میں بدل جاتے ہیں۔ بدھا فلسفے کے چوتھے اصول کے مطابق جو لوگ صرف نیکی کی باتیں کرتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کرتے وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔ بدھا کا کہنا تھاکہ انسان کا اپنا تجربہ سب سے بڑا استاد ہے،ہر انسان کو اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا چاہئے اور چاہے صورتحال جیسی بھی ہو، کسی صورت دوسروں سے ہمدردی اور غمگساری کا رویہ ترک نہیں کرنا چاہئے۔ گوتم بدھ اپنے آبائی دیس سے ایک شہزادے کی صورت میں روانہ ہوا تھا لیکن جب ایک طویل عرصے بعد واپس پہنچا تو ایک سادھو بن چکا تھاجس نے زرد رنگ کامعمولی لباس پہنا ہوا تھا،ہاتھ میں کشکول تھاما ہوا تھااورخوبصورت لمبے بالوں کی جگہ سرمُنڈا تھا۔ بدھا کے امن پسندانہ درس نے بوڑھے راجا، بیوی بچوں سمیت رعایا کے دِل جیت لئے۔ رفتہ رفتہ بدھ مت کی تعلیمات خطے کے دوسرے علاقوں میں بھی اپنا اثر دکھانے لگیں اور آج ہزاروں سال بیت جانے کے باوجود بدھ مت کا شمار دنیا کے بڑے مذاہب میں کیا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی آبادی کا لگ بھگ سات فیصد (تقریباََ 520ملین افراد)بدھ مت کے ماننے والے ہیں،ایشیاکے بیشتر ممالک بشمول جاپان، کوریا،چین، میانمار، تھائی لینڈ، کمبوڈیا،ویت نام، سری لنکا، سنگاپور، بھوٹان،ہانگ کانگ، لاؤس، انڈیا اور منگولیا وغیرہ میں بدھ مت کے ماننے والوں کی کثیر تعداد بستی ہے، ہمسایہ ملک چین کی آبادی کا اٹھارہ فیصد(244ملین افراد)بدھ مت کے پیروکار وں پر مشتمل ہے، اسی طرح روس، امریکہ اور مغربی ممالک میں بھی بدھ مت کے ماننے والے موجود ہیں۔ پاکستان میں واقع شمالی علاقے کی دوہزار سالہ قدیم گندھارا تہذیب بدھ مت کے عظیم ماضی کی آئینہ دار ہے،دنیا کے ہر بدھا کی دلی خواہش ہے کہ وہ ٹیکسلا،تخت بھاہی، سوات اور پاکستان کے دیگر حصوں میں گوتم بدھا سے منسوب مقدس مقامات کی یاترا کرسکے۔ دنیا بھر میں پاکستان میں تیارکردہ بدھاکے مجسموں کی بہت زیادہ مانگ ہے،تاریخی شہر ٹیکسلا میں ایسے بے شمار عظیم مجسمہ ساز ہیں جنہوں نے اپنے باپ دادا سے ہندوشاہی، یونانی اور ایرانی نقوش والے بدھا مجسموں کو بنانے کا ہنر سیکھا، وہ اپنی ذات میں ایک انسٹیٹیوٹ کا درجہ رکھتے ہیں، تاہم عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ان کی محنت کا معاوضہ دو ہزار روپے ادا کیا جاتا ہے جبکہ بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں انکی تیارکردہ مورتیوں کو دس ہزار ڈالر میں فروخت کیا جارہا ہے۔بدقسمتی سے ہم نوادرات کی اسمگلنگ پر تو قابو نہیں پاسکے لیکن ہم نے اپنے فنکاروں کی قدر کرنے کی بجائے فرسودہ قوانین کی روُ سے انہیں مجرم بنا دیا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ پاکستان کی ملکی معیشت کے استحکام کیلئے مذہبی سیاحت کا فروغ ناگزیر ہے، آج گوتم بدھا کی سالگرہ کے موقع پر میں اربابِ اختیار کو یہ تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اگر گندھارا کے مجسموں کی نقل بنانے کے قانون پر نظرثانی کرلی جائے تو نہ صرف سنگ تراشی کے فن کو پروموٹ کیا جاسکتا ہے بلکہ گوتم بدھا کے مجسمے عالمی مارکیٹ میں وافر مقدار میں زرمبادلہ کمانے کا باعث بنیں گے،آج پاکستان کاامن پسندانہ مثبت امیج عالمی سطح پر اجاگر کرنےکے لئے بدھ اکثریتی دوست ممالک کے ساتھ کلچرل ڈپلومیسی فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین