ملکی سیا ست اب نئے رخ پر چل پڑی ہے۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں پھوٹ پڑچکی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے راستے جد کر لئے ہیں ملک بھر میں جلسے منعقد کرکے اپوزیشن نے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جو دبائو کا ماحول بنایا تھا اور حکومت کو گھر بجھوا نے کیلئے 26مارچ کو اسلام آ باد دھرنا دینےکا جو پلان بنایا گیا تھا وہ پی ڈی ایم کے اندرونی اختلافات کی نذر ہوگیا اور وزیر اعظم عمران خان نے سکون کا سانس لیا کہ سانجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹ گئی ۔ پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف جو ٹیمپو بنایا تھا وہ دم توڑ چکا ہے۔ پی ڈی ایم عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔
پیپلز پارٹی کی شکل میں عمران حکومت کو فر ینڈلی اپوزیشن مل گئی ہے۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان قربت کا ہنی مون ختم ہوگیا ہے بلکہ اب تو ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری کی جا رہی ہے۔ پہلے اشاروں کنایوں میں طعنہ زنی کی گئی اب با قاعدہ الزام تراشی شروع ہوگئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کی قیادت اس صورتحال کو انجوائے کر رہی ہے بلکہ پی ٹی آئی کی بریگیڈ کو ریسٹ مل گیا ہے جو اس سے قبل ہر وقت پی ڈی ایم کو آڑ ےہاتھوں لینے کیلئے اگلے مورچوں پر حالت جنگ میں رہتی تھی۔ اب یہ فر یضہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی خود ہی انجام دے رہی ہیںاسلئے وزیروں اور مشیروں کی توپیں خاموش ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ڈی ایم نے بہت محنت سے حکومت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرلی تھی ۔اگر 26مارچ کو اسلام آ باد میں دھرنا دیا جاتا اور اسمبلیوں سے استعفوں کا کارڈ استعمال کیا جا تا تو حکومت کا قائم رہنا بہت مشکل ہوجاتا۔اس صورتحال سے بچنے کیلئے ہی حکومت کے بہی خواہوں نے پی ڈی ایم میں نقب لگائی ۔ تبدیلی تو اسی دن آگئی تھی جب نیب نے آصف علی زرداری کی در خواست ضمانت کی مخالفت نہیں کی تھی۔پی ڈی ایم نے جتنی محنت کی تھی اس کا فائدہ صرف پیپلز پارٹی کو ہی ملا اور مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف والے ہاتھ ملتے رہ گئے۔ آصف علی زردار ی نے واقعی ثابت کیا کہ ایک زرداری سب پر بھاری ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس بار حکومت کی بجائے اپو زیشن کیلئے بھاری ثابت ہوئے ۔دراصل مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کو پیپلز پارٹی سے استعفوں کا مطالبہ ہی نہیں کرنا چاہئے تھا ۔
یہ بات پہلے روز سے اظہر من الشمس تھی کہ پیپلز پارٹی کسی صورت سندھ حکومت سے دستبردار نہیں ہوگی۔اسی لئے پیپلز پارٹی نئے الیکشن ے حق میں نہیں تھی ۔ نئے الیکشن کا مطالبہ صرف ن لیگ اور جے یو آئی کا تھا ۔ اے این پی بھی اس کے حق میں تھی لیکن بعد ازاں اے این پی نے پیپلز پا رٹی کے ساتھ صف بندی کرلی ۔پیپلز پارٹی نے اپنے کارڈ بہت مہارت سے کھیلے ۔ مریم نواز چونکہ سیا سی طور پر ابھی پختہ کار نہیں ہیں اسلئے وہ بلا ول پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کر بیٹھیں ۔اب انہیں دکھ اپنی توقعات کو ٹھیس پہنچنے کا ہے۔
پیپلز پارٹی نے پہلے دن سے پی ڈی ایم کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالے رکھی اور اپنی ہر تجویز منوائی ۔ ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کی تجویز پیپلز پارٹی نے دی۔ سینٹ الیکشن میں حصہ لینے کی تجویز بھی پیپلز پارٹی نے دی ۔پی ڈی ایم کی با قی جماعتوں نے ان تجاویز پر عمل کیا۔ اس بار باقی جماعتوں نے ایکا کر لیا کہ پیپلز پارٹی کو استعفوں پر راضی کیاجا ئے تو پیپلز پارٹی نے انکار کردیا۔ یہ کارڈ مریم نواز اور مولانا فضل الر حمن نے جان بوجھ کر کھیلا کیونکہ انہیں یہ علم ہوگیا تھا کہ پیپلز پارٹی وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کے جارحانہ بیانات بالخصوص اہم شخصیات کے نام لے کر تنقید نے اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کیا کہ وہ زرداری آپشن پر جائیں۔
پیپلز پارٹی کی کوشش یہ تھی کہ ہم اپوزیشن اتحاد کا حصہ رہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی معاملات کو ٹھیک رکھیں ۔ اسی لئے کراچی کے جلسہ میں نواز شریف کی تقر یر نہیں کرائی گئی جس کی میزبان پیپلز پارٹی تھی۔ دراصل اب پیپلز پارٹی اپنی انٹی اسٹیبلشمنٹ شناخت کھوچکی ہے۔مسلم لیگ جوہمیشہ پرو اسٹیبلشمنٹ رہی ہے اب انٹی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ادا کر رہی ہے لیکن یہ کردار نواز شریف اور مریم نواز تک محدود ہے۔ شہباز شریف اور حمزہ اب بھی پرو اسٹیبلشمنٹ یعنی مفاہمانہ اور مصالحانہ سیا ست کے حامی ہیں ۔سید یوسف رضا گیلانی کی کا میابی میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے اور انہیں اپوزیشن لیڈر بنو انا بھی گیم پلان کا حصہ ہے ۔ صادق سنجرانی کی جیت میں بھی پی پی پی کا تعاون حاصل تھا۔ اب سیاست نے نئی کروٹ یہ لی ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ قانون سازی میں تعاون کرے گی ۔
پیپلز پا رٹی اب فر ینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی ۔اگرچہ مسلم لیگ ن ، جے یوآئی ،پختو نخوا ملی عوامی پارٹی ، نیشنل پارٹی اوربی این پی مینگل کے 27سنیٹرز نے آ زاد گروپ بنا لیا ہے اور یوسف رضا گیلانی کو اپو زیشن لیڈر ماننے سے انکار کردیا ہے لیکن قانون سازی کیلئے حکومت کو جو سادہ اکثریت درکار ہے وہ پیپلزپارٹی کے تعاون سے حاصل ہوجا ئےگی۔پیپلز پارٹی کی یہ بات اصولی طور پر درست ہے کہ اس کے ممبران اپوزیشن جماعتوں میں سب سے زیادہ ہیں اور پا ر لیمانی رویات یہی ہے کہ سب سے بڑی جماعت کا اپوزیشن لیڈر ہو لیکن یہ بات ریکارڈ پر رہے کہ یہ فیصلہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر ہواتھا کہ اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ن سے ہوگا۔ یوسف رضا گیلانی کی شکست کے بعد پیپلز پارٹی کو دوبارہ پی ڈی ایم سے رجوع کرنا چاہئے تھا کہ پہلے فیصلہ پر نظر ثانی کی جا ئے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے حکومتی ممبران کو ساتھ ملا کر اپو زیشن لیڈر بننا بھی بہر حال پا ر لیمانی روا یت کے خلاف ہے۔ یہ کتنی دلچسپ بات ہے کہ وہ سنیٹرز نے جنہوں نے چیئر مین کیلئے صادق سنجرانی کو ووٹ دیا اب انہی نے اپوزیشن لیڈر کیلئے یوسف رضاگیلانی کو دستخط کرکے دیدیے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بے شک انہوں نے چالاکی سے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ سنبھال لیا ہے لیکن اسکی قیمت اپنی ساکھ کی صورت میں دینی پڑی ہے۔پی ڈی ایم کے اپوزیشن اتحاد کی تقسیم اور پی ٹی آئی حکومت کو مشکل سے نکالنے کا سہرا بہر حال پیپلزپارٹی کے سر ہے۔ سینٹ میں اپویشن کی تقسیم کا اثر اب قومی اسمبلی میں بھی نظر آئے گا جہاں مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اپوزیشن لیڈر ہیں ۔
پی پی پی انہیں اپوزیشن لیڈر تسلیم نہیں کرے گی ۔ اگرچہ مسلم لیگ کے ممبران کی تعداد 83ہے اور جے یو آئی کے ممبران بھی اس کے ساتھ ہیں اسلئے یہ عہدہ تو ان سے نہیں چھینا جا سکتا لیکن منقسم اپو زیشن کا فائدہ تو بہر حال پی ٹی آئی حکومت کو جا ئے گا۔پی ٹی آئی حکومت انتخابی اصلاحات چاہتی ہے ۔ عدالتی اصلاحات چاہتی ہے ۔ اسے اب قانون سازی میں پی پی پی کا تعاون مل جا ئے گا۔
یہ ضرور ہے کہ اصل اپوزیشن کا کردار اب مسلم لیگ ن ، جے یو آئی ، بی این پی مینگل اور پی کے میپ ادا کریں گے۔ پیپلز پارٹی نے استعفوں کے ایشو پر پارٹی کی سی ای سی کا پانچ اپریل کو بلایا جا نے والا اجلاس ملتوی کر دیا۔ بلاول بھٹو نے مریم نواز کی بجائے شہباز شریف اور حمزہ شہبازسے رابطے رکھنے کی بات کر کے مریم نوازپر ایک اور وار کیا ہے۔گویا اب اسٹیبلشمنٹ کے بعد پیپلز پارٹی بھی ن سے ش نکالنے کی حامی بن گئی ہے۔