• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالی عمر میں بیچاری پی ڈی ایم کی مرگِ ناگہانی پر ان دوستوں کے غم میں برابر کا شریک ہوں جنہوں نے حکومت گرانے کے بڑے بڑے خواب دیکھے تھے ۔ میں نے سمجھانے کی تو بہت کوشش کی تھی مگر اُس وقت ان کے سر پر مولانا/مریم کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔اب پھر اپوزیشن کے سراب سے دھوکا کھا کر یہی کہہ رہے ہیں حکومت کو اپوزیشن سے نہیں خود سے خطرہ ہے ۔ان دوستوں کےلئے دکھ کی ایک اور پیش گوئی کہ یونیورسٹی آف وولورہمٹن کی رپورٹ کے مطابق’’ عمران خان کی حکومت کا دورانیہ سات ساڑھے سات سال باقی ہے۔ پاکستان کے عوام اگلی بار بھی انہی کو منتخب کریں گے ،عمران خان کی کامیابی اس لئے بھی یقینی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت مسلسل ایک پیج پر ہیں ‘‘۔اور یونیورسٹی آف گُلن خیل کی رپورٹ کے مطابق جب تک عمران خان ہیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہی رہیں گے ۔’’یونیورسٹی آف گُلن خیل ‘‘کی وضاحت بڑی ضروری ہے ۔میانوالی سے پی ٹی آئی کے ایم این اے امجد خان کے والد گرامی ڈاکٹر شیر افگن خان محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیر ہوا کرتے تھے ، وہ محترمہ کو کئی بار بتا چکے تھے کہ میں نے ایم بی بی ایس کیا ہے ، میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر نہیں ہوں مگر محترمہ یہی سمجھتی تھیں کہ ڈاکٹر شیر افگن خان نے لا میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے ۔ایک مرتبہ کیبنٹ میٹنگ میں غیر ملکی یونیورسٹیوں کی بات ہورہی تھی کہ اچانک محترمہ نے ڈاکٹر شیر افگن خان سے پوچھ لیا ۔’’ڈاکٹر صاحب آپ نے کونسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے؟ ‘‘ڈاکٹر صاحب نے تنگ آکر انگلش لہجہ بنا کرکہا ’’یونیورسٹی آف گُلن خیل ‘‘۔ایک بار ہارور ڈیونیورسٹی کے کوئی پروفیسر پاکستان آئے ہوئے تھے محترمہ نے ان کی ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کراتے ہوئے کہا۔ ’’انہوں نے یونیورسٹی آف گلن سے لا میں پی ایچ ڈی کی ہے ‘‘۔ اور پھر ڈاکٹر صاحب سے مخاطب ہوکر کہا اور کیا نام ہے آپ کی یونیورسٹی کا ‘‘ڈاکٹر صاحب نے پھر اسی لہجے میں کہا ’’یونیورسٹی آف گُلن خیل ‘‘۔اُس بیچارے پروفیسر نے یہی سوچا ہوگا کہ کوئی ایسی یونیورسٹی ہے جس کا نام میں نہیں جانتا، سو وہ خاموش رہا مگر اس کے جانے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے محترمہ کو حقیقت حال بتائی کہ گلن خیل اُس گاؤں کا نام ہے جس میں میں نے پرورش پائی ہے ۔ محترمہ دیر تک ہنستی رہیں اور پھر جب بھی کوئی خاص بات یا اندر کی بات پوچھنی ہوتی تھی تو ڈاکٹر صاحب سے کہتی تھیں ’’یونیورسٹی آف گلن خیل ‘‘کی کیا رپورٹ ہے؟ واپس موضوع پر آتے ہیں ۔وہ جن کی اب تمام ترامیدیں جہانگیر ترین سے وابستہ ہو کررہ گئی ہیں کہ ان کے سبب پی ٹی آئی میں عمران خان کے خلاف کوئی بغاوت ہو جائے گی۔ ترین حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے اور کوئی طوفان آجائے گا۔ میں انہیں اس کے سوا اور کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اسلام آباد میں کچھ نئے آئی اسپیشلسٹ آگئے ہیں، ممکن ہے ان سے ملاقات فائدہ مند ثابت ہو۔

احسن اقبال نے بیوروکریسی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اپوزیشن کیخلاف انتقامی کارروائیوں کا حصہ بننے والے سرکاری افسر خیر منائیں، اقتدار میں آکر نہیں چھوڑیں گے‘‘۔ان کےلئے عرض ہے کہ دوسال بیورو کریسی نون لیگ کی واپسی کے خوف میں مبتلا رہی اور ملک میں بے شمار کام رکے رہے مگر وہ بھی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ عمران خان کی حکومت جانے کا کم از کم سات سال کوئی امکان نہیں۔ سو بیورو کریسی اس وقت پوری طرح حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر چکی ہے اور حکومت نے بھی طے کر لیا ہے جو بیورو کریٹ کام کے راستے میں رکاوٹ بنے گا وہ ہمیشہ کیلئے گھر بھیج دیا جائے گا۔ بے شک احد چیمہ کی ضمانت ہو گئی ہے مگر اس نے کتنا طویل عرصہ جیل میں گزارا ہے، اس کا اندازہ ہر بیورو کریٹ کو ہو چکا ہے۔ اب کارکنوں کی گل پاشیوں سے کچھ نہیں ہو سکتا۔

اس ہفتے کا اہم واقعہ یہ ہے کہ روسی وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایئر پورٹ پر ان کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا ۔ امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کے آخری دورہ ِ پاکستان پر شاہ محمود قریشی کی بجائے سفارتی حکام نے ان کا استقبال کیا تھا۔ یہ بھی ایک طرح کا میسج تھا بلکہ خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔ اس کا آغاز دسمبر 2018میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ماسکو کے دورہ سے ہوا۔ پھر معاملہ جون 2019میں بشکیک میں کچھ اور بڑھا ۔ جب شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کی روسی صدر پیوٹن سے ملاقات ہوئی، مل کر تصاویر کھنچوائیں۔ کھانے کی میز پر خاصی دیرمحو گفتگو رہے۔ پھر اسی سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں روسی وزیر خارجہ کی پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی ۔ ستمبر 2020ء میں ماسکو میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم میں بھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات کی تھی۔روسی وزیر خارجہ نے چین کا ابھی دورہ کیا ہے ۔تیرہ اپریل کو ایران کا دورہ کررہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چین کی طرح روس بھی ہمارے سمندری راستوں سے دنیا کے ساتھ کاروباری روابط بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس بات کا امکان بھی ہے کہ سی پیک میں روس بھی شامل ہو جائے ۔روس کیلئے سب سے اہم مسئلہ اس وقت بھی افغانستان ہے۔ وہاں امن کا قیام پاکستان اور روس دونوں کےلئے بہت اہم ہے ۔پاکستان، روس اور چین مل کر افغان مسئلہ کا آسانی سے حل نکال سکتے ہیں مگر ابھی دیکھنا ہے کہ پاکستان کی اس بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی کے ساتھ امریکہ کیسے ڈیل کرتا ہے ۔یورپین ممالک اس کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ترکی کا رویہ کیا ہے ۔ابھی پاکستان روس سے کچھ اسلحہ خرید رہا ہے مگر روس سے ٹیکنالوجی کے حصول میں بھی دلچسپی رکھتا ہے ۔بہت سی چیزیں ہیں جو امریکہ اور مغرب ہمیں فراہم کرنے پر تیار نہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ روس کی طرف سے ان کی فراہمی کا عندیہ ملا ہے۔

تازہ ترین