اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا باب تقریباً بند ہوچکا ہے، عوامی نیشنل پارٹی نے پی ڈی ایم سے علیحدگی کا باضابطہ اعلان کردیا ہے ،یہ اعلان پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے شوکاز نوٹس جاری کرنے کے ردعمل میں کیا گیا کیونکہ پی ڈی ایم کے سربراہ نے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے انتخاب کے معاملہ پر اپوزیشن کے مشترکہ مفادات کو نقصان پہنچانے کے الزام میں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو شوکاز نوٹس جاری کئے۔
حالانکہ اے این پی اپوزیشن اتحاد کی ان جماعتوں میں شامل تھی جس نے لانگ مارچ سے قبل ہی پارلیمنٹ سے استعفوں کے حق میں رائے دی تھی ، پیپلز پارٹی بھی عملی طور پر پی ڈی ایم سے راہیں جدا کرچکی ہے،درحقیقت پی ڈی ایم سربراہی اجلاس کا انعقاد کئے بغیرہی جس انداز میں پیپلز پارٹی اور اے این پی کو شوکاز نوٹس جاری کئے گئے ایسا لگا جیسے یہ دونوں جماعتیںپی ڈی ایم کی کوئی ذیلی تنظیمیں ہوں چنانچہ اس رویہ کا ردعمل متوقع تھا، اسی لئے اے این پی کے مرکزی رہنما امیرحیدر ہوتی نے پریس کانفرنس میں اپوزیشن اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ’’ شوکاز نوٹس کے ذریعے اے این پی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
پی ڈی ایم کو ہائی جیک ہوچکا ہے اور بعض جماعتیں اس کو اپنے ذاتی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے استعمال کررہی ہیں جن لوگوں نے انہیں شوکاز جاری کیا دراصل انہوں نے خود ہی پی ڈی ایم کے خاتمہ کا اعلان کیا ہے‘‘ اگر دیکھا جائے تو عوامی نیشنل پارٹی کی بات اصولاً درست ہے کیونکہ ایک سیاسی اتحاد کے اندر کسی جماعت کو کسی دوسری جماعت پر نہ تو برتری ہوتی ہے اور نہ ہی ایک پارٹی دوسری کے ماتحت ہوتی ہے بلکہ ہر پارٹی برابری کی بنیاد پر اتحاد کا حصہ ہوتی ہے، بہرحال مسلم لیگ ن اور جے یو آئی نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے معاملہ پر جس طرح اے این پی اور پی پی کو نشانہ پر رکھا ، ایسا لگ رہا تھا کہ اب پیپلز پارٹی جلد ہی پی ڈی ایم سے راہیں الگ کرلے گی مگر تمام تر بیان بازیوں کے باوجود پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم سے علیحدگی کا کوئی فیصلہ نہ ہی اعلان کیا۔
اس معاملہ میں اے این پی یقینا ًپیپلز پارٹی سے بازی لے گئی کیونکہ جوں ہی دونوں جماعتوں کو انتہائی ہتک آمیز طریقہ کیساتھ شوکاز نوٹسز جاری کئے گئے تو پی پی نے تو نوٹس کا جواب دینے کا فیصلہ کیا لیکن اے این پی نے شوکاز نوٹس کا تحریری جواب دینے کی بجائے عملی اقدام کی صورت میں ایسا بھر پور جواب دیا کہ جس سے جے یو آئی اور لیگ ن والے حیران و پریشان رہ گئے، انہیں ہرگز یہ توقع نہیں تھی کہ اے این پی یوں فوری اور اچانک عملی ردعمل کا اظہار کرے گی ، ویسے بھی یہ دکھائی دے رہا تھا کہ اے این پی صوبہ میں جے یو آئی کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثر و رسوخ سے خوش نہیں ہے کیونکہ اگر دیکھا جائے تو ملک بھر میں اے این پی کا بیس کیمپ خیبر پختونخوا ہی ہے، جے یو آئی کے پاس پھر بھی خیبر پختونخوا کیساتھ بلوچستان میں محفوظ مورچہ موجود ہے۔
مبصرین بجا طور پر یہ کہنے لگے ہیں کہ اے این پی ویسے بھی اپنی روشن خیال اور ترقی پسند پالیسیوں کی وجہ سے ایسے اتحاد کیساتھ مزید نہیں چل سکتی تھی جس کی سربراہی ایک مذہبی جماعت کے امیر کررہے ہوں، ظاہر ہے اس طرح اے این پی کی اپنی سیاست کی نفی ہوتی جارہی تھی، جے یو آئی چونکہ صوبہ میں دو دفعہ اپنا وزیر اعلیٰ لاچکی ہے جبکہ اے این پی اس تمام عرصہ میں صرف ایک مرتبہ ہی یہ منصب حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے، دوسری طرف اگر قومی اسمبلی کے انتخابات کی بات کی جائے تو اکثر انتخابات میں جے یو آئی صوبہ سے قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کے لحاظ سے اے این پی سے آگے ہی دکھائی دیتی ہے۔
اس وقت خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف دوسری مرتبہ برسراقتدار ہے اس لئے اسکی عوامی مقبولیت کا گراف گر رہا ہے، اے این پی کو ایسا لگتا ہے کہ شاید وہ ایک قابل قبول پارٹی کے طور پر سامنے آسکتی ہے کیونکہ مولانا فضل الرحمان اسٹبلشمنٹ کیخلاف اپنے سخت گیر بیانیہ میں اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ ان کیساتھ کسی قسم کے ڈائیلاگ نہیں ہوسکتے چنانچہ اے این پی کو صوبہ میں اپنے لئے ایک اوپننگ دکھائی دے رہی ہے کہ تحریک انصاف نہیں تو شاید ہم قابل قبول ہوسکتے ہیں، شاید یہ وہ عوامل تھے جس نے اے این پی کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ وہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جے یو آئی کو مزید فعال ہونے کیلئےاپنا کندھا کیوں فراہم کرے، ویسے ایک تاثر یہ بھی ہے کہ اے این پی کی صوبائی قیادت شروع دن سے ہی پی ڈی ایم کیساتھ چلنے کیلئے تیار نہیں تھی۔
ابتدائی دنوں میں اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان مولانا فضل الرحمان کیخلاف بیانات دے کر پی ڈی ایم سے ایک قسم کی لاتعلقی ظاہر کر تے رہےاور ان کا کہنا تھا کہ اے این پی کسی کو بھی اپنا کندھا استعمال کرنے نہیں دے گی بلکہ ایک موقع پر تو ان کا یہاں تک کہنا تھا کہ اے این پی حکومت اور پی ڈی ایم کی لڑائی میں تماشائی کا کردار ادا کرے گی تاہم بعد ازاں جب اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی کو پی ڈی ایم کا نائب صدر ، میاں افتخار حسین کو اپوزیشن اتحاد کا ترجمان اور زائد خان کو ڈپٹی جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا تو اے این پی کی صوبائی قیادت نے مخالفانہ بیانیہ ترک کیا تاہم پھر بھی ایمل ولی خان نے پی ڈی ایم کے صوبہ میں ہونے والے کسی جلسہ میں خطاب نہیں کیااور ساتھ ہی پھر نوشہرہ کے الیکشن میں اے این پی نے پی ڈی ایم کی تمام تر کوششوں کے باوجود اپنا امیدوار دستبردار کرانے سے انکار کردیا تھا۔
اس معاملہ میں بھی ایمل ولی خان نے ہی سخت کردار ادا کیا تھااور آخر کار اب اے این پی پی ڈی ایم سے الگ ہوچکی ہے، مستقبل کی تصویر کچھ یوں دکھائی دے رہی ہے کہ اب اے این پی اور پیپلز پارٹی بعض ترقی پسند جماعتوں کیساتھ مل کر الگ سے حکومت کے خلاف جدوجہد جاری رکھ سکتی ہے، اس بات کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اے این پی کے علیحدگی کے فیصلہ کے فوراً بعد ہی پیپلز پارٹی نے اظہار یکجہتی کیلئے اعلیٰ سطحی وفد ولی باغ بھجوادیا تھا۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ دونوں جماعتوں کی قیادت کے درمیان مستقبل میں مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق رائے ہوچکا ہے اور اب جوں ہی پی پی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی پی ڈی ایم سے علیحدگی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس کیساتھ ہی دونوں جماعتوں کا سیاسی اشتراک عمل مزید آگے بڑھ سکتا ہے۔